Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 8
وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا یَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا خٰلِدِیْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنٰهُمْ : ہم نے نہیں بنائے ان کے جَسَدًا : ایسے جسم لَّا يَاْكُلُوْنَ : نہ کھاتے ہوں الطَّعَامَ : کھانا وَ : اور مَا كَانُوْا : وہ نہ تھے خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے
اور ہم نے ان پیغمبروں کو کبھی ایسے جسم کا نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے تھے
انبیاء ورسول کی بشریت کے مخالفین سے کہا جارہا ہے کہ ہم نے جسم بھی ان کو دیا اور موت بھی : 8۔ مشرکین مکہ اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ (آیت) ” مالھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق “۔ (الفرقان 25 : 8) ” یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے “ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ” اللہ کو رسول بھیجنا ہی تھا تو کیا اس کے پاس کوئی فرشتہ نہیں تھا “۔ زیر نظر آیت میں ان دونوں باتوں کا جواب ان کو دیا گیا ہے کہ ” ہم نے تو ان پیغمبروں کو ایسے جسم کا نہیں بنایا کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے تھے ۔ “ ان لوگوں کو یہ تعجب کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ ان کے عقیدہ میں بھی تھا کہ ” بشر “ کبھی رسول نہیں ہوتا اور دوسرا یہ کہ ” کھاتا پیتا اور ضروریات زندگی “ بھی نہیں رکھتا اور یہ بھی کہ وہ ” ہمیشہ زندگی رہتا ہے کبھی نہیں مرتا “ گویا کفار مکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو نہ تو بشر مانتے تھے اور نہ ہی بشری ضروریات ان کے ساتھ لازم سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حیات انبیاء کے قائل تھے اور قرآن کریم نے ان تینوں باتوں کا مکمل رد کردیا لیکن تعجب ہے کہ آج بھی سواد اعظم کے مانے گئے مجدد ملت کے اور ان کے پیروکاروں کے تینوں عقیدے وہی ہیں جو اس وقت مشرکین مکہ یا کفار مکہ کے تھے کہ وہ انبیاء کرام کی بشریت کا بھی انکار کرتے ہیں اور بشر ماننے اور کہنے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اس طرح وہ ان کے اجسام خاکی کے بھی قائل نہیں کیونکہ ان کو نوری مخلوق بیان کرتے ہیں اور خود بھی وہ خاص جو ذات الہی کا ہے اور حیات النبی کے قائل ہیں اور فضلات رسول اللہ ﷺ کو بھی پاک و طاہر مانتے ہیں یعنی پیشاب وپاخانہ ‘ تھوک ‘ کھنکھار وغیرہ پاک و طاہر تسلیم کرتے ہیں اور ان چیزوں کے کھانے پینے اور استعمال کرنے میں برکت مانتے ہیں اور غالبا یہ چیزیں کفار مکہ کے عقائد سے ترقی پانے میں ان کو نصیب ہوتی ہوں گی کیونکہ ان کے عقائد فرشتہ تسلیم کرلینے پر ہی ختم ہوجاتے تھے کہ جب فرشتہ مان لیا تو پھر حوائج و ضروریات کی ضرورت کیونکر باقی رہی اور فضلات کی بحث خود بخود ہوگئی ۔
Top