Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 3
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ عَنِ اللَّغْوِ : لغو (بیہودی باتوں) سے مُعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
جو نکمی باتوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں
ایمان والوں کی دوسری علامت کہ وہ لغو سے منہ پھیر لیتے ہیں : 3۔ لغو کیا ہے ؟ ہر وہ بات جو شمار کے قابل نہ ہو یعنی جو غور وفکر سے نہ کی جائے ، اس کا ذکر سورة البقرہ کی آیت 225 میں گزر چکا ہ کے ‘ اس جگہ سے مراد ہر وہ فعل ہے جو فضول اور بےفائدہ ہو۔ ایمان کی علامات ونشانات میں اس جگہ یہ ایمان کی دوسری علامت یا نشانی کے طور پر بیان ہوا ہے گویا جو شخص فضول ‘ بےفائدہ اور ثبت کام کرے وہ ایمان کے خلاف کرے گا ۔ اس لئے کہ ایمان والوں کو بتایا جا رہا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ بڑا ہی قیمتی ہے اس کے کندھوں پر ایک بہت بڑا بار کراں ہے اس لئے اس کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ بیکار اور فضول کاموں میں شرکت کرے ۔ معلوم ہوا کہ ساری لا یعنی باتیں اور ہر طرح کے کھیل وتماشے ‘ لعب ولہو لغو ہیں ۔ لیکن اس وقت بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت کو اس لغو کی چاٹ لگ چکی ہے جس کے ختم ہونے کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آتی حالانکہ ایک سچے مسلمان کی شان یہ نہیں کہ ایک لمحہ بھی کسی غیر مفید بات کی طرف توجہ کرے لیکن سیروسیاحت کو لغو نہ سمجھ لیا جائے بلکہ اس کو تو اسلام نے ضروریات دین میں شمار کیا ہے تاہم اس میں اعتدال ضروری ہے ، مختصر یہ کہ دنیا کا ہر وہ کام جو فقط دنیا ہی تک محدود ہو اور آخرت میں نافع نہ ہو وہ بلاشبہ ” لغو “ ہے شور وغوغا اور ” رولا رپا “ ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن آج کل بدقسمتی سے ہمارے زندگی میں لغویات زیادہ معقولات ان کی نسبت بہت کم ہیں ۔
Top