Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 125
بَلٰۤى١ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُسَوِّمِیْنَ
بَلٰٓى : کیوں نہیں اِنْ : اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو وَيَاْتُوْكُمْ : اور تم پر آئیں مِّنْ : سے فَوْرِھِمْ : فوراً ۔ وہ ھٰذَا : یہ يُمْدِدْكُمْ : مدد کرے گا تمہاری رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِخَمْسَةِ : پانچ اٰلٰفٍ : ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُسَوِّمِيْنَ : نشان زدہ
ہاں ! بلاشبہ اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو اور جب ایسا ہو کہ دشمن اچانک تم پر چڑھ آئے تو تمہارا رب (تین ہزار کی بجائے) پانچ ہزار نشان رکھنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا
جب مخالفین کی تعداد بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تعداد کو بڑھا دیا : 237: اس آیت میں فرشتوں کی تعداد کو پانچ ہزار کردیا گیا۔ یہ جنگ احد ہی کا واقعہ ہے یا کسی دوسری جنگ کا۔ بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ دراصل بدر میں کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور اللہ نے ایک ہزار فرشتوں سے مسلمانوں کی مدد فرمائی جیسا کہ الانفال میں فرمایا گاگ اور پھر احد کے میدان میں کفار کی تعداد تین ہزار تھی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد بھی تین ہزار فرشتوں سے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور بعض نے کہا ہے کہ پہلی دونوں مددیں تو بدر میں تھیں لیکن احد میں پہلے تین ہزار کی مدد تھی اور بعد میں بڑھا کر پانچ ہزار کی مدد کردی گئی اور دراصل یہ ساری باتیں ہی درست ہیں اس لیے کہ ہر معرکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ اور مومنین کی مدد فرمائی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی نصرت فرماتا ہی رہتا ہے اور پھر آئندہ آنے والی آیت نے خود اس ساری مدد کی تفصیل بیان کردی ہے۔ آیت زیر نظر میں ارشاد فرمایا کہ ” منْ فَوْرِھِمْ “ فور دراصل شدت جوش کا نام ہے اور اس کا استعمال آگ کے متعلق ہوتا ہے جب وہ بھڑک جائے اور ہانڈی کے متعلق ہوتا ہے جب وہ ابلنے لگے۔ اور غصہ کی انتہائی حالت پر اس لفظ کو بولا جاتا ہے اور اس لفظ سے فوراً ہے جو ہماری زبان میں استعمال ہے اور بطور استعارہ ” فور “ کے معنی فی الحال بھی کیے جاتے ہیں۔ مُسَوِّمِیْنَ جس کا اصل ” سوم “ اس کے معنی ہیں ” کسی چیز کی تلاش میں جانا “ (راغب) اور لسان العرب میں ہے کہ ” سام “ چار معنوں میں آتا ہے۔ چرنے کے لیے چھوڑا ، طلب کیا ، بیچا اور عذاب دیا۔ اس جگہ ” مُسَوِّم “ میں یہی آخری معنی مراد ہیں یعنی عذاب دینے والے مُسَوِّمِیْنَ تباہی ڈالنے والے یا عذاب دینے والے اور عام معنی ” نشان کیے گئے “ کیے جاتے ہیں۔
Top