Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 126
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : کیا۔ یہ اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر وہ صرف بُشْرٰى : خوشخبری لَكُمْ : تمہارے لیے وَلِتَطْمَئِنَّ : اور اس لیے اطمینان ہو قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل بِهٖ : اس سے وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر (سوائے مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ : حکمت والا
یہ بات جو کہی جا رہی ہے تو صرف اس لیے کہ تمہارے لیے خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس کی وجہ سے مطمئن ہوجائیں ، مدد و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے اس کی طاقت سب پر غالب ہے اور وہ اپنے تمام کاموں میں حکمت رکھنے والا ہے
اس طرح تم کو فتح و نصرت کی خوشخبری دی گئی تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں : 238: بدر ، احد اور احزاب تینوں جنگوں میں مسلمانوں کی تعدادکفار کی تعداد کے مقابلے میں کوئی نسبت نہ رکھتی تھی۔ تینوں جنگوں کی ابتداء کفار کی طرف سے ہوئی جو بدنیتی پر مبنی تھی کیونکہ تینوں ہی جنگوں کی غرض مسلمانوں اور اسلام کا استیصال تھا۔ تینوں ہی جنگوں میں امداد الٰہی یعنی نزول ملائکہ کی خوشخبری مسلمانوں کو سنائی گئی اور تینوں ہی جنگوں میں کفار اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ جنگ احد میں اگرچہ مسلمانوں کو کافی نقصان ہوا لیکن وہ مسلمانوں کی اپنی کوتاہی کا نتیجہ تھا تاہم انجام کار فتح اسلام ہی کو نصیب ہوئی اور خصوصاً جنگ احزاب جس کا دوسرا نام خندق بھی ہے کہ بعد دوبارہ کفار کو مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد نبی اعظم و آخر ﷺ دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور کفار کو اپنے گھر میں بھی مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کفار کو دو طرح کا وعدہ دیا گیا تھا جس کے متعلق وہ بار بار مطالبہ بھی کرتے تھے جیسا کہ سورة نحل میں فرمایا گیا کہ ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّکَ ۔ (النحل : 33:16) ” اے پیغمبر اسلام ! یہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں تو اس بات کے سوا اور کون سی بات اب باقی رہ گئی ہے کہ فرشتے ان پر اتر آئیں یا تیرے پروردگار کا مقرر حکم ظہور میں آجائے ؟ سو اللہ تعالیٰ نے ان تینوں ہی جنگوں میں جہاں کفار کی چڑھائی مسلمانوں پر تھی ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی نصرت فمرائی اور کفار کو سزا دی اور ان کو ان کے ارادے میں ناکام رکھا اور فتح مکہ میں گویا امر رب ہی آگیا کیونکہ اسلام کی حکومت قائم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا۔ وہی کفار جو ہزارہا کا لشکر لے کر مٹھی بھر مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے جایا کرتے تھے اب ان میں اتنی بھی ہمت نہ رہی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے دس ہزار قدوسیوں کے مقابلہ میں باہر میدان میں ہی نکل سکیں اور یہ بات واضح ہوگئی کہ امر حق کا مقابلہ کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ پس ملائکہ کے نزول میں گویا دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کو پورا فرمایا جس کا مطالبہ بار بار کفار کی طرف سے ہوتا تھا اور بروقت خوشخبری دے کر مسلمانوں کے دلوں کو بھی مضبوط کردیا گیا کہ وہ کفار کی اکثریت سے دل برداشتہ نہ ہوجائیں اللہ اور اس کے فرشتوں کی مدد ان کے ساتھ ہے اور پھر جس کا اللہ مددگار ہو اس کو کون شکست دے سکتا ہے ؟ پھر اس زیرنظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نزول ملائکہ کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے صرف تمہارے لیے بشارت ٹھہرایا اور تاکہ تمہارے دل اس خوشخبری کے ساتھ مطمئن ہوجائیں اور بالکل اس طرح سورة الانفال میں ارشاد فرمایا : وَمَا جَعَلَ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَالِتَطْمَئِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ ” اور یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں۔ “ ازیں بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ : اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ (الانفال : 12:8) ” اے پیغمبر اسلام ! وہ وقت یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ ۔ “ اصولی باتیں جو ہم کو قرآن کریم کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام تو نہیں لیا گیا کہ وہ خود حرب و ضرب کا کام کریں بلکہ اس کی صورت یہ تھی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک ٹھیک ان کے مارنے کی جگہ پر بیٹھے اور کاری لگے اور اس کے مقابلہ میں کفار کی طرف سے جو وار اہل اسلام پر ہو وہ فرشتوں کی مدد سے خالی جائے جس سے کفار کی خوب پٹائی ہو اور مسلمانوں کو کوئی گزند نہ آئے۔ مدد و نصرت جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے : 239: یہ نزول ملائکہ کی کوئی فرضی بات نہ تھی بلکہ ایک حقیقت تھی ورنہ یہ ناممکن تھا کہ معدودے چند مسلمان اس قدر فوجوں کا مقابلہ کر کے کامیاب ہو سکتے۔ غور کا مقام ہے کہ ایک آدھ میدان میں اگر تھوڑے بہتوں پر غالب آجائیں تو اسے اتفاق کہا جاسکتا ہے گو وہاں بھی کوئی نہ کوئی وجہ کامیابی کی ضرور ہوتی ہے مگر یہاں تو یہ حالت ہے کہ اول میدان بدر میں کفار کی جمعیت تگنی تھی۔ میدان کا چھا حصہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ پانی ان کے قبضہ میں تھا۔ ان کی فوج تجربہ کار جنگی جوان تھے اور بالمقابل مسلمانوں میں بچے ، بوڑھے شامل تھے۔ ہتھیار نہ ہونے کے برابر تھے۔ میدان کی مشکلات اس پر متزاد تھیں پھر بھی کفار سخت نقصان اٹھاتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ پھر میدان احد میں بجائے تگنے کے اب کفار کی تعداد مسلمانوں سے چوگنی ہے سواروں کی ایک بڑی جمعیت ان کی فوج میں ہے۔ خالد بن ولید جیسے بہادر بھی ان کے ساتھ ہیں مگر پھر بھی کفار خالی ہاتھ اور ناکام واپس جاتے ہیں۔ جنگ احزاب میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے دس گنی علاوہ ازیں مدینہ کے اندر یہودی دشمن اور منافق جاسوسوں کا کام کرنے والے موجود تھے مگر وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بڑی فوج کو ناکام اور نامراد کر کے واپس پھیرا اور وہ سخت پریشانی کے عالم میں بھاگے یقینا یہ نزول ملائکہ ہی کا نتیجہ تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملائکہ کا نزول ہوا تھا تو کیا انہوں نے انسانوں کی شکل میں ہو کر جنگ بھی کی ؟ جس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نازل کیا وہ تو خود ہی بتا دی ہے اور حق بھی یہی ہے کہ ملائکہ کا تعلق قلوب سے ہوتا ہے۔ پس مومنوں کو اطمینان قلب عطا کرنا اور کفار کے دل میں رعب ڈالنا یہ وہ غرض تھی جس کے لیے ملائکہ کا نزول ہوا۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ اصل مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور وہی سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ جس کام کے لیے اس نے جو اصول مقرر کیے ہیں وہ سب کے سب گویا اس کے وعدے ہیں اور ان کا پورا ہونا یقینی اور لازمی ہے۔ وہ سب کام اس طرح طے ہوئے جیسے ان کا ہونا علم الٰہی میں طے پایا تھا۔ اس طرح مدد الٰہی کا ذکر قرآن کریم میں کئی ایک دوسرے مقامات پر بھی کیا گیا ہے جس کی ایک سے زیادہ صورتیں بتائی گئی ہیں جس کو نزول ملائکہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کی ہدایات پر بھی محمول کرسکتے ہیں تاہم حقیقت سب جگہ ایک ہی جیسی ہے اگر فرق ہے تو اگر فرق ہے تو صرف الفاظ کا یا طریق بیان کا جو تفہیم کے لیے ایک لازمی اور لابدی امر ہے تاکہ اچھی طرح ایک بات ذہن نشین ہوجائے۔ اگرچہ ہر جگہ بدر و احد ہی مراد نہیں لیا گیا۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (الانفال : 46 ۔ 45:8) ” مسلمانو ! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ “ اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ ایسا کرو گے تو تمہاری طاقت سست پڑجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی اور جیسی کچھ بھی مصیبتیں پیش آئیں تم صبر کرو۔ اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ “ سورة الانفال کی ان دو آیات میں پانچ باتیں تلقین کی گئیں اور یقینا ان پانچوں باتوں میں ایک سے ایک بڑھ کر نصرت الٰہی اور مدد خداوندی پر مبنی ہے۔ 1۔ فرمایا ثابت قدم رہو کیونکہ میدان جنگ کی ساری کامیابی اس کے لیے ہوتی ہے جو آخر تک ثابت قدم رہے۔ 2۔ فرمایا اس نازک حالت میں بھی اللہ کو یاد کرو کیونکہ جسم کا ثبات دل کے ثبات پر موقوف ہے اور دل اس کا مضبوط رہے گا جو اللہ پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ 3۔ فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور رسول کے بعد اپنے امام و سردار کی کیونکہ بغیر اطاعت یعنی ڈسپلن کے کوئی جماعت بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 4۔ باہمی نزاع سے بچو ورنہ سست پڑجاؤ گے اور بات بگڑ جائے گی۔ 5۔ کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں پوری مردانگی سے جھیلتے رہو بالآخر جیت اس کی ہے جو زیادہ جھیلنے والا ہوگا۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہوا : اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا وَ لَوْ اَرٰکَھُمْ کَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ وَ اِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِھِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا وَ اِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ (الانفال : 44 , 43:8) ” اے پیغمبر اسلام ! یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو مسلمانو ! تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے۔ اللہ نے تمہیں اس صورت حال سے بچا لیا۔ یقین کرو جو کچھ انسان کے سینے میں چھپا ہوتا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں ہے اور پھر دیکھو جب تم دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیے اور ان کی نظروں میں تم تھوڑے دکھائی دیے اور یہ اس لیے کیا تھا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دار و مدار اللہ کی ذات پر ہے۔ “ آیت 43 میں اس خواب کی طرف اشارہ کیا ہے جو جنگ بدر سے پہلے پیغمبر اسلام نے دیکھا تھا اور جس میں دشمن ناکام اور مسلمان فتح مند دکھائی گئے تھے۔ خواب مسلمانوں کے لیے مزید تقویت کا باعث ہوا تھا اور آیت 44 میں دونوں جماعتوں یعنی مدنی جماعت اور مکی جماعت کے آمنے سامنے میدان جنگ میں کھڑے ہونے کی جگہ کا نقشہ بتایا گیا ہے کہ دونوں جماعتوں کے آمنے سامنے کے وقت دونوں ہی ایک دوسرے کو تھوڑا دیکھ رہ تھیں حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ مسلمان تو فی الواقعہ تھوڑے تھے لیکن کفار مکہ کی تعداد ان سے تگنی تھی تاہم مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے جو لوگ تھے وہ تھوڑے ہی نظر آ رہے تھے ایسا کیوں ہوا ؟ فرمایا : اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی ہمت بڑھا کر جس فتح کا وعدہ ان کو دیا تھا اس کو پورا کر دکھائے سو وہ پورا ہوگیا۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : وَ اِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآئَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ ۔ (الانفال : 48:8) ” اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما کر کے دکھا دیے تھے اور کہا تھا آج لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں مگر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور کہنے لگا مجھے تم سے کوئی سرو کار نہیں۔ مجھے وہ بات دکھائی دے رہی ہے جو تم نہیں دیکھتے۔ “ اس سورة الانفال کی آیت 48 میں وہ شیطان کون تھا جس نے یہ کام کیا کہ پہلے مکہ والوں کو خوب ابھارا اور جب وہ اسلامی لشکر کے سامنے کھڑے ہوگئے تو خود بھاگ گیا ؟ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سراقہ بن مالک ابن جعثم تھا جس نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا تھا لیکن لڑائی شروع ہوتے ہی بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ چناچہ مکہ کے لوگ بھی کہتے تھے کہ ہم کو سراقہ نے مروا دیا۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کردی کہ مخالفین میں پھوٹ پڑگئی اور ان کے کچھ لوگ دل چھوڑ گئے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ (التوبۃ : 40:9) ” اللہ نے اپنا سکون وقرار اس پر نازل کیا اور پھر ایسی فوجوں سے مددگاری کی جنہیں تم نہیں دیکھتے اور بالآخر کافروں کی بات پست کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ ہی کی بات ہے جس کے لیے بلندی ہے اور اللہ غالب آنے والا حکمت والا ہے۔ “ یہ ہجرت کی رات کا واقعہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ اپنے رفیق خاص حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر نکلے تھے اور اس خیال سے کہ آپ ﷺ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا آپ ﷺ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر جو شمال کی جانب تھی جنوب کی راہ اختیار کی یہاں تین دن تک آپ ﷺ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ ﷺ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب وہ اسی غار کے دہانے تک پہنچ گئے اس وقت صدیق اکبر ؓ کو سخت خوف ہوا لیکن نبی رحمت ﷺ کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔ اس آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ ان شاء اللہ !
Top