Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
بلاشبہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے رہے ہیں اور (اس دن بھی) جس دن گواہ کھڑے ہوں گے
رسولوں کے بارے میں ہماری طے شدہ بات ہے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں 51۔ زیر نظر آیت مفسرین کے درمیان ایک معرکہ آرا آیت ہے اور بہت کچھ اس کے متعلق کہا گیا ہے بعض نے رسولوں اور نبیوں میں ایک فرق بیان کرکے تحریر کیا ہے کہ اس جگہ چونکہ رسولوں کی مدد کا ذکر ہے اس لیے جتنے رسولوں کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے ان سب کی قوموں کو انجام کار ہلاک کیا گیا ہے اور ان کو صرف ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اس دنیا میں بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے ور یہ بیان کر کے وہ بہت کوش ہیں کہ ہم نے حرف آخر کہہ دیا اور اب ہمارے نظریہ کا کوئی بدل ممکن نہیں حالانکہ قرآن کریم نے کتنے ہی لوگوں کو رسول کہا ہے اگرچہ ان کے نام نہیں لیے لیکن ان کی قوم نے ان کو بہت ظلم کر کے قتل کیا ہے اور پھر قوم کی ہلاکت بھی نہیں ہوئی۔ ان مفسرین کو اگر صرف سورة یسٰین ہی کا مطالعہ یاد ہوتا تو وہ اس نظریہ کو تحریر کر کے اپنے سے باہر نہ ہوتے کیونکہ زیر نظر آیت اور اس جیسے دوسری آیتوں میں صرف رسولوں کی مدد ونصرت کا ذکر نہیں بلکہ ساتھ ہی تمام ایمان والوں کی مدد ونصرت کا بھی ذکر ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ (انا لننصر رسلنا والذین امنوا) یقینا ہم اپنے رسولون کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے مدد کرتے ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جس طرح رسولوں پر ایمان لانے والے موجود تھے نبیوں پر بھی ایمان لائے اور جس طرح رسولوں کی مخالفت کی گئی نبیوں کی بھی کی گئی جس طرح بعض ایمان والے قتل ہوئے اسی طرح نبی بھی ہوئے اور ورسول بھی ہوئے جس طرح ایمان والوں کو تنگ کیا گیا رسولون کو بھی کیا گیا اور نبیوں کو بھی کیا گیا پھر اس میں تخصیص چہ معنی دارد ؟ حالانکہ حقیقت اس کی فقط یہ ہے کہ نصرت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ جس حق کو رسول لائے ہیں اور جس کو پھیلانے کی ایمان والے حتی المقدور کوشش کرتے ہیں اور اس کو پھیلانے چاہتے ہیں اس مقصد میں یقینا ان کو کامیابی ہوتی ہے ان کی موجودگی میں ہو یا ان کی عدم موجودگی میں وہ قتل ہوجائیں یا طبعی موت مریں اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ سچ اور حق ہمیشہ سچ اوپر حق ہی رہتا ہے وہ بات کا مرہون منت نہیں ہوتا کہ اس کو کسی نے سچ اور حق قبول کیا ہے یا جھوٹ اور دھوکا اور فریب کہا ہے بہرحال کوئی کچھ کہے جب نکھار کا وقت آتا ہے تو دونوں کا فرق واضح ہوجاتا ہے اور یہی وہ کامیابی ہے جو حق کو اور سچ کو مل چکی ہے کوئی تسلیم کرے یا بالکل نہ کرے نمک اور پتھر ایک ہی وزن اور ایک ہی رنگت رکھتے ہوں لیکن جب ان کو پانی میں رکھ دیا جائے تو فرق واضح ہوجاتا ہے کہ پتھر کیا ہے اور نمک کیا ؟ یہی حال حق و باطل کا ہے اس کی وضاھت ہم پیچھے عروۃ الوثقی جلد پنجم سورة بنی اسرائیل کی آیت 81 ، 82 میں کر آئے ہیں۔ بلاشبہ اس دنیا میں یہی حدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسولوں اور ایمان والوں کے لیے اپنے قانون میں طے کردی ہوئی ہے کہ حق کو دبانے کے لیے بڑے بڑے زور آور اس دنیا میں آئے لیکن حق اگر حق ہے تو اس نے کبھی شکست نہیں کھائی بلکہ انجام کار کامیابی اس کو حاصل ہوتی ہے اگرچہ بظاہر ایسا نظر نہ آیا ہو کیونکہ دنیا داروں کی فتح وشکست کے اصول اور ہیں اور دینداروں کی فتح و کامیابی کے اصول اور پھر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کو نہ سمجھنے کے باعث لوگوں کو ٹھوکر لگی ہے جو غور وفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ فرمایا یہ تو دنیا میں ہماری مدد ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ ہے اور آخرت میں جو ( یوم الاشھاد) ہے اس کی مزید وضاھت تمہارے سامنے آجائے گی کیونکہ آج جو لوگوں کی آنکھوں سے مستور اور چھپا ہوا ہے اس دن وہ مکمل طور پر واضح اور روشن ہوجائے گا اور ہر ایک اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور یقین کرلے گا کیونکہ گواہ وہاں موجود ہوں گے۔ یہ بات اس جگہ بیان کرنے کی ضرورت کیوں ہوئی ؟ اس لیے کہ پیچھے ایک مرد مومن کا ذکر آیا تھا اور اس کی باتوں کا بھی جو فی الواقع حق تھیں اگرچہ ان کو اس وقت کسی ایک نے بھی تسلیم نہ کیا ہو۔ لیکن حق کسی کے تسلیم کرنے کا محتاج کب ہے ؟ یہی بات اس جگہ تفہیم کرائی گئی ہے اور آنے والی آیت اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔
Top