Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 61
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَعِلْمٌ : البتہ ایک علامت ہے لِّلسَّاعَةِ : قیامت کی فَلَا تَمْتَرُنَّ : تو نہ تم شک کرنا بِهَا : ساتھ اس کے وَاتَّبِعُوْنِ : اور پیروی کرو میری ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ : یہ ہے سیدھا راستہ
اور بلاشبہ وہ قیامت کی نشانی ہے سو تم اس وقت کے وقوع میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے
قیامت کے بارے شک میں نہ پڑو قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بالکل سچ ہے 61 ؎ (انہ) کی ضمیر کا مرجع کون ہے ؟ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ سید مودودی (رح) فرماتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں ہیں بلکہ ” عیسیٰ (علیہ السلام) کے بےپدری پیدائش ہے اور ان کا مٹی سے پرند بنانا اور مردے جلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے اور ارشاد خداوندی کا منشاء یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کرسکتا ہے اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پتلے میں جان ڈال سکتا ہے اور مردوں کو زندہ کرسکتا ہے اس کے لیے آخر اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ “ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ” ہ “ کی ضمیر کا مرجع قرآن کریم ہے۔ جن مفسرین نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مرجع قرار دیا ہے اگرچہ ہمارا اتفاق ان سے نہیں ہے تاہم ان کی بات سمجھ میں ضرورآتی ہے کہ انہوں نے ہ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ (علیہ السلام) کو کیوں قراردیا۔ لیکن سید مودودی (رح) کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہ ضمیر کا مرجع اگر عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں تو ان کے بےپدری پیدائش اور دوسرے افعال کس طرح ہوگئے یہ تو وہی بات ہے کہ دو اور دو کتنے ہوئے کسی نے جواب دیا چار روٹیاں۔ جس طرح چار پر بات ختم ہوتی تھی لیکن نہیں کی گئی بلکہ ساتھ روٹیوں کا لاحقہ لگایا گیا جس نے ساتھ روٹیوں کا لاحقہ استعمال کیا اس کی اصل وجہ ظاہر ہے کہ وہ بھوک تھی اگر مودودی صاحب اپنی بےپدری کی بات کرتے تو ہم یقینا مان لتیے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ایسی بات خاکم بدہن کہ ہم کہیں کیونکہ یہ بات آدم زادوں کے لیے گالی سے کم نہیں ہے اور نہ یہ بات اللہ نے فرمائی نہ اللہ کے رسول محمد رسول ﷺ نے اور نہ خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے اور نہ آپ کی والدہ مریم (علیہ السلام) نے اس لیے ہم نے کہا ہے کہ سید صاحب اپنی بات کرتے تو ہم مان لیتے کیونکہ وہ اپنے آپ کو گالی دینا چاہتے تو ہم مان سکتے تھے کیونکہ وہ ان کا ذاتی معاملہ تھا۔ یہ بھی کہ اگر اللہ کی قدرت کا اظہار اس طرح ممکن ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ اب بھی قادر ہے کیا وہ مودودی صاحب (رح) کو بےپدر پیدا نہیں کرسکتا تھا کہ اس طرح ماننے میں ہم کو کوئی دشواری لاحق ہوتی۔ بہرحال سید صاحب نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اگر اس طرح کا نظریہ رکھنا پسند کیا ہے تو سو بار رکھیں لیکن اس آٰیت سے اس کا سلسلہ نہ جوڑیں کہ اس طرح بات بالکل بےجوڑ بن جاتی ہے رہی یہ بات کہ ہم نے جو قرآن کریم کو مرجع قرار دیتے ہیں ان کی رائے کو کیوں پسند کیا ہے تو وہ محض اس لیے کہ اس وقت جب یہ کہا گیا ابھی قرآن کریم کا نزول ہورہا تھا کچھ ہوچکا تھا اور کچھ باقی تھا اور آپ ﷺ کی وفات کے وقت قرآن کریم کا نزول مکمل ہوچکا تھا اس لیے جو چیز قیامت کی دلیل ہو سکتی تھی وہ یہی تھی کہ قرآن کریم نے اس کی پوری پوری وضاحت کردی تھی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ابھی ہونا تھا اس وقت بھی اور اب بھی اگر بقول بعض اس کو صحیح مان بھی لیا جائے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بےپدری پیدائش کا قرآن کریم نے کہیں ذکر ہی نہیں کیا اور نزول ثانی کو اگر ہوگا بھی تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ نزول قرآن کے وقت کے کفار کے لیے اور اس سے پہلے کفار کے لیے وہ کیسے ذریعہ علم قرار پاسکتا تھا کہ ان کو خطاب کرکے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ ” پس تم اس میں شک نہ کرو “ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جس میں ہ کا مرجع قرآن کریم قرار دیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کا ذکر پہلے نہیں کیا گیا لیکن ان کا یہ اعتراض صحیح نہیں ہے کیوں ؟ اس لیے کہ بہت سے موقعوں پر اس طرح ضمیر قرآن بغیر اس کے پہلے ذکر کرنے کی آتی ہے جیسے ارشاد الٰہی ہے کہ (لاتحرک بعہ لسانک لتعجل بہ) (القیمہ 75 : 16) اور (انا انزلنہ فی لیلۃ القدر) (القدر 97 : 1) اور اس طرح کی دوسری آیات میں بھی صرف ضمائر کا مرجع قرآن کریم قراردیا گیا ہے حالانکہ اس سے پہلے قرآن کریم کا ذکر موجود نہیں ہے اس طرح اس جگہ بھی قرآن کریم ہی کو مرجع رار دیا جاسکتا ہے اور ہم نے اس کو صحیح سمجھا ہے۔ رہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بےپدری ، مردوں کو زندہ کرنا ، کوڑھیوں کا درست کرنا ، نابینائوں کو بینا بنانا اور اسی طرح کے دوسرے افعال تو اس کی وضاحت ہم عزوۃ الوثقی جلد دوم سورة آل عمران کی آیات 45 تا 51 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔
Top