Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 69
یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يُنَادُوْنَهُمْ : وہ پکاریں گے ان کو اَلَمْ : کیا نہ نَكُنْ : تھے ہم مَّعَكُمْ ۭ : تمہارے ساتھ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : کیوں نہیں وَلٰكِنَّكُمْ : لیکن تم نے فَتَنْتُمْ : فتنے میں ڈالا تم نے اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفسوں کو وَتَرَبَّصْتُمْ : اور موقعہ پرستی کی تم نے وَارْتَبْتُمْ : اور شک میں پڑے رہے تم وَغَرَّتْكُمُ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو الْاَمَانِيُّ : خواہشات نے حَتّٰى جَآءَ : یہاں تک کہ آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا فیصلہ وَغَرَّكُمْ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الْغَرُوْرُ : بڑے دھوکے باز نے
(منافق) ان کو پکاریں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے وہ کہیں گے کیوں نہیں لیکن تم نے خود اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالا اور تم منتظر رہے اور شک میں پڑے رہے اور تمہاری (آرزوؤں اور) تمناؤں نے تم کو دھوکے میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ اللہ کا فرمان آپہنچا اور تم کو اللہ کے بارے میں دغا باز (شیطان) دھوکے میں ڈالے رہا
وہ اہل جنت کو پکاریں گے اور پھر ان کی طرف سے ان کو نقد جواب سنایا جائے گا 14 ؎ گزشتہ آیت میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ منافقین نے جب مومنوں کو مخاطب کر کے ان کی روشنی سے اقتباس حاصل کرنے کی اپیل کی تو کیا ہوا تھا ؟ یہی کہ ابھی مومنوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے ان کے سوال کا عملاً جواب دے دیا اور وہ جواب یہ تھا کہ ایک طرف سے تو ان کے سامنے ایک دیوار کی آڑ پیدا کردی اور دوسری طرف انہوں نے ان کو دھتکارتے ہوئے واپس جا کر اپنے نور کی تلاش کرنے کا حکم سنایا تھا لیکن وہ واپس جاتے تو کیسے ، کیوں ؟ اس لیے کہ اب تو ان کی واپسی کا راستہ ہی بند تھا اور سامنے کی دیوار میں بھی صرف ایک درواز رکھا گیا ان کو دکھائی دیتا تھا جس دروازہ سے وہ تاک جھانک تو سکتے تھے لیکن داخل ہونے کی اجازت ان کو نہیں تھی اور اس طرح وہ گویا ایک جگہ پابند ہو کر رہ گئے جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اب جو ان کی نظر اس دروازہ پر پڑی تو وہ دروازہ سے جھانک کر گویا پھر بولیں گے کہ اے بندگان خدا ! کیا دنیا میں ہم بھی تمہارے ساتھ ہی نہ تھے ، ہمارا تمہارا رہنا سہنا اکٹھا نہ تھا کیا ہم تمہارے دوست نہ تھے ، کیا میں اور تم میں رشتہ داری نہ تھی ، کیا تم سے دنیا میں بھی دل لگی نہ کیا کرتے تھے ؟ آج تم لوگوں نے ہم سے کیوں منہ موڑ لیا ہے اور کیوں ایسے نظر آنے لگے ہو کہ گویا کبھی ہم اور تم میں شناسنائی ہی نہ تھی ۔ اب اہل جنت کی طرف سے ان کو جواب دیا جا رہا ہے کہ اہل جنت ان سے مخاطب ہو کر فرمائیں گے ( بلی) کیوں نہیں ، بلا شبہ دنیا میں تم ہمارے ساتھ تھے ، ہمارا تمہارا رہنا سہنا بھی اکٹھا ہی تھا ، ہم میں اور تم میں رشتہ داریاں بھی تھیں ، دل لگی بھی تھی لیکن تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈال دیا یعنی تم نے اپنے نفسوں کو ابتلاء میں اور عذاب میں پھینک دیا تھا اور تم نے وہاں بھی فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا رکھی تھی یہ چونکہ منافقین تھے ، اسلام کا دعویٰ تو بہر حال ان کا تھا لیکن ان کی حالت فالحقیقت ایسی ہی تھی کہ اسلام پر جب بھی کوئی کٹھن گھڑی آئی تو انہوں نے اسلام کی مشکلات میں اضافہ کرنے میں اپنے سارے وسائل صرف کردیئے ( و تربضتم) اور تم انتظار کرتے رہو کہ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور پانسہ کس کے حق میں پلٹتا ہے۔ گویا کفر و اسلام کی کش مکش جب عروج پر تھی تو تمہارا فرض تھا کہ تم نتائج سے بےپرواہ ہو کر اپنی قسمت اسلام کے ساتھ وابستہ کردیتے اور توحید و رسالت کی جو شہادت تم نے زبان سے دی تھی تم پر لازم تھا کہ تم اس کو اپنے عمل سے سچا کر دکھاتے لیکن تمہارا ساری زندگی شک ہی دور نہ ہوا ( وارتبتم) کا اصل مادہ ری ب ہے۔ تم شک میں پڑے ، ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ایمان لانے کے بعد ساری زندگی تم شک ہی میں مبتلا رہے اور ایمان جس کا دوسرا نام یقین بھی ہے وہ تمہارے دل میں کبھی پیدا ہی نہ ہوا اور اس دولت سے تم محروم ہی رہے۔ تم جو ایمان لائے تو محض دیکھا دیکھی ، بھیڑ چال کے تحت ایمان لے آئے یقین کی دولت سے تم کبھی بھی مالا مال نہ ہوئے اور دعویٰ ایمان کے باوجود تم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو شک ہی کی نگاہ سے دیکھا اور اللہ کی کتاب پر جس طرح ایمان لانا چاہئے تھا ویسا ایمان نہ لائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا وقت آیا تو تم نے آنکھیں موند لیں اور تمہارے دل دھک دھک کرنے لگتے تھے۔ تم کو جھوٹی آرزوئوں نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا کہ فلاں بزرگ بڑی کرنی والے ہیں اور ہم ان کو پیر مان چکے ہیں ، وہ ہماری سفارش کردیں گے ، فلاں سے ہمارے تعلقات بہت گہرے ہیں وہ ہمارے کام آجائے گا ۔ تم ایسی ہی آرزوئوں میں پڑے رہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا یعنی تم پر موت وارد ہوگئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے سارے تعلقات تم سے منقطع ہو کر رہ گئے اور آج تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کوئی شخص بھی تمہاری مدد کو نہ آیا اور اس طرح جس نے تم کو اس طرح کے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔ اس طرح تم بظاہرتو ہمارے ساتھ ہی تھے لیکن یہ بات بھی تو تم کو معلوم ہے کہ تمہارے باطن میں کیا پنہا تھا بس وہی تمہاری تباہی و بربادی کا باعث ہوا۔ یہ تو ان کی حالت تھی جس کا ذکر کے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت ہی ہم کو آگاہ کردیا لیکن ہم جو اس وقت زندہ وجاوید ہیں اور قرآن کریم کو پڑھتے ہیں ہمارا حال کیا ہے اور ان آیات کریمات کو پڑھ کر جو ہم مردوں کو ثواب پہنچاتے ہیں اس سے بھی حقیقت کا کیا تعلق ہے اگر غور کرو گے تو کیا جن کا حال زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ہے آج ہماری حالت ان سے بھی گئی گزری نہیں ہے ؟ کیا وہ حقیقت کو نہ سمجھ سکے تو ہم سمجھ رہے ہیں ؟ اگر وہ جن باتوں پر ایمان لائے تھے ان پر ایمان لانے کے باوجود شک میں رہے ہیں تو کیا ہمارا شک نکل چکا ہے ؟ اگر وہ جس طرح ایمان لانا چاہئے تھا ایمان لائے تو کیا ہم ویسا ہی ایمان لے آئے ہیں ؟ اگر نہیں اور یقینا تو کیا جو حال ان کا ہونے والا ہے وہ ہمارا نہیں ہوگا۔ ہماری اپیل ہے کہ اس آیت کو ایک بار مزید پڑھیں اور غورو فکر کے ساتھ پڑھیں اور اپنے متعلق خود ہی فیصلہ کرلیں کہ یہ بات ہی تمہارے لیے مفید ہوگی اور فائدہ کی بات جہاں سے بھی میسر آئے لینا عقل مندی کی نشانی ہے نہ کہ بےعقلی اور ناسمجھی کی ۔ اگر عروۃ الوثقی کا باقاعدہ مطالعہ آپ نے کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ اقوام کی تباہی اور ہلاکت کا اصل موجب یہی ( الامالی) یعنی آرزوئیں تھیں اور ہماری قوم مسلم کو تباہی کے دہانے تک لے جانے والی بھی ییر آرزوئیں ہیں جو گھڑ لی گئی ہیں۔
Top