Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور تو تعجب کرے اگر انہیں اس حالت میں دیکھے جب یہ آتش دوزخ کے کنارے کھڑے ہوں گے اس وقت کہیں گے اے کاش ! ایسا ہو کہ ہم پھر دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں اور اپنے پروردگار کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور ان میں سے ہوجائیں جو ایمان والے ہیں
ان لوگوں کو جب آگ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا اور یہ اپیلیں کر رہے ہوں گے ذرا اس کا تصور بھی کرو : 42: یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل جہنم ہونے تک بلکہ اس کے بعد بھی باربار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے۔ اب ہماری توبہ ہے ۔ ہماری ماں مرے جو آئندہ ایسا کریں۔ اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اب ہم سیدھی راہ چلیں گے۔ چناچہ دوسری جگہ فرمایا : ” پھر کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ اس کا مطلب وقوع میں آجائے جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے بھولے بیٹھے تھے بول اٹھیں گے بلاشبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے ، کاش ! شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے یا کاش ! ایسا ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف کام انجام دیں ، بلاشبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افتراء بردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے کھوئی گئیں “ (الاعراف 7 : 53) ایک جگہ فرمایا : ” ‘ اور لوگوں کو اس دن کی آمد سے خبردار کر دو جب کہ ان پر عذاب نمودار ہوجائے گا اس دن ظلم کرنے والے کہیں گے اے پروردگار ! تھوڑی سی مدت کے لیے ہمیں مہلت دے دے ہم تیری پکار کا جواب دیں گے اور پیغمبروں کی پیروی کریں گے ، کیا تم وہی نہیں ہو کہ اب سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہمیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا ؟ اور تم انہیں لوگوں کی بستیوں میں بستے تھے جنہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی تھی اور تم پر اچھی طرح واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا ، نیز تمہیں سمجھانے کے لیے طرح طرح کی [ 2 ] مثالیں بھی ہم نے بیان کردیں۔ “ (ابراہیم 14 : 44 ، 45) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ان منکروں کا حال ایسا ہی رہے گا یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سرہانے موت آ کھڑی ہوگی تو وہ اس وقت کہنے لگے گا اے اللہ ! مجھے پھر لوٹا دے۔ شاید اب میں نیک کام کرسکوں ، ہرگز نہیں یہ محض ایک کہنے کی بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اب ایسا ہونے والا نہیں ، ان لوگوں کے پیچھے ایک آڑ ہے جو اس دن تک رہے گی کہ دوبارہ اٹھائے جائیں “ (المومنون 23 : 99 ، 100) ایک ارشاد فرمایا ہوا : ” پس اب نہ ہمارا کوئی سفارش کرنے والا ہے۔ اور نہ کوئی غم خوار دوست ہے۔ “ (الشعراء 26 : 100 ۔ 101) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ‘ اور جب منافقوں اور دلوں کے اندر (کدورت کا) مرض رکھنے والوں نے کہا کہ ہم سے تو اللہ اور اس کے رسول نے محض دھوکے کا وعدہ کیا تھا “ (السجدہ 33 : 12) اور اس جگہ ارشاد فرمایا ” اور تو تعجب کرے اگر انہیں اس حالت میں دیکھے جب یہ آتش دوزخ کے کنارے کھڑے ہوں گے ، اس وقت کہیں گے اے کاش ! ایسا ہو کہ ہم پھر دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں اور اپنے پروردگار کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور ان میں سے ہوجائیں جو ایمان لانے والے ہیں۔ “
Top