Urwatul-Wusqaa - An-Naba : 20
وَّ سُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًاؕ
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ : اور چلا دیئے جائیں گے پہاڑ فَكَانَتْ : تو ہوں گے وہ سَرَابًا : سراب
اور پہاڑ چلائے جائیں گے ، پس وہ ریت کی طرح ہوجائیں گے
اور پہاڑ چلائے جائیں گے اور وہ ریت کی مانند ہوں گے ۔ 20 (میرث) وہ چلائی گئی۔ وہ چلائے گئے ” تسیر “ جس کے معنی چلانے کے ہیں۔ ماضی کا صیغہ واحد مئونث غائب۔ راغب لکھتے ہیں تسیر کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو سائر جو چلنے والے کے امر و اختیار اور ارادہ سے ہو جیسے (ھو الذی یسیرکم) ویہ تو ہے جو تم کو چلاتا ہے اور دوسرے وہ جو بذریعہ قہر و تسخیر کے ہو جیسے کہ پہاڑوں کا تسخیر و تسییر ہے کہ : (واذا الجبال سیرت) اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور (و سیرت الجبال) اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ (سراباً ) سراب چمکتی ہوئی ریت کو کہتے ہیں اور خصوصاً جب شدت گرما میں دوپہر کے وقت دھوپ کی تیزی سے میدان میں جو ریت پانی کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے اور دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا پانی بہہ رہا ہے اور مکانات اور درختوں کا عکس اس میں دکھائی دے رہا ہے اسے ” سراب “ کہتے ہیں چونکہ اکثر اس کی نظر پڑنے سے پانی کا دھوکا ہوجاتا ہے اس لئے سراب دھوکا اور فریب کے لئے ضرب المثل ہے۔ فرمایا وہ دن ایسا دن ہوگا کہ اس کی آمد سے قبل ہی پہاڑ اکھڑ جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑتے ہوں گے اور ان کے ذروں کو اس طرح جمع کردیا جائے گا جیسے ریت کے بڑے بڑے تودے ہوتے ہیں اور یہ تودے اکثر دریائوں کے اندر دور سے دیکھنے والوں کو اسی طرح دکھائی دیتے ہیں گویا کہ وہ چلتا ہوا پانی ہے اور دیکھنے والوں کو اس سے دھوکہ لگتا ہے وہ اس طرح کہ جب پانی سمجھ کر پانی کی تلاش میں نکلنے والا اس کے قریب پہنچتا ہے تو وہ بجائے پانی کے ریت کے تودے دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس وقت جو اس کی حالت ہوتی ہے اس کا جواب ہم نے عروۃ الوثقی جلد ششم سورة النور کی آیت 93 ، 04 کے تحت دے دیا ہے۔
Top