Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 125
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل (جمع) مَّرَضٌ : بیماری فَزَادَتْھُمْ : اس نے زیادہ کردی ان کی رِجْسًا : گندگی اِلٰى : طرف (پر) رِجْسِهِمْ : ان کی گندگی وَمَاتُوْا : اور وہ مرے وَھُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
لیکن جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے تو بلاشبہ اس نے ان کی ناپاکی پر ایک اور ناپاکی بڑھا دی (انجام کار) وہ مر گئے اور اس حالت میں مرے کہ ایمان سے قطعی محروم تھے
روگی دلوں کا روگ مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں : 161: لیکن ہاں ! جن کے دلوں میں نفاق کے روگ ہے ان کی اس نجاست پر مزید نجاست کے ردے پر ردے چڑھتے چلے جاتے ہیں اور ان کی زندگی کے کسی مرحلہ میں بھی توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی یہاں تک کہ اسی حالت کفر میں ان کو ایک دن فرشتہ اجل آدبو چے گا اور وہ گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ سمجھ لینا چاہئے کہ قرآن کریم کی آیات سے اہل ایمان کے ایمان میں درجہ بدرجہ زیادتی ہونا اور اہل نفاق کے نفال کا غلیظ سے غلیظ تر ہونا محض استعارہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔ قرآن کریم کا ہر حکم اہل ایمان کے لئے ایک میدان مسابقت کھولتا ہے اور جب وہ اس میدان کی بازی جیت لیتے ہیں تو ان کی قوت ایمانی میں مزید دوسرے میدان جیتنے کے لئے قوت ، عزم اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے برعکس اہل نفاق ایک محرومی کے بعد دوسری محرومی اور ایک پسپائی کے بعد پسپائی کی ذلتیں سہتے سہتے ایمان کی آختی رمق سے بھی خالی ہوجاتے ہیں اور ان کے دلوں پر نفاق پر نفاق کی اتنی مؤتی تہیں جم جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کے اندر جتنی صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں سب ان کے نیچے دب دبا کر مردہ ہوجاتی ہے۔ غور کرو کہ بارش ایک جیسا برستی ہے لیکن کھیت کی سبزی اس سے رات ہی رات میں ہری بھری ہو کر لہلہانے لگتی ہے اور گندگی کے ڈھیر پر اس بارش کا جو اثر ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس کا تعفن ہزار گنا بڑھ جاتا ہے اور وہاں سے گزرنے والوں کو ناک بند کرنا پڑتی ہے۔ کیا بارش ایک ہی طرح کی تھی یا نہیں ؟ ایک ہی بارش کا نتیجہ دونوں مختلف کیوں رہا ؟
Top