Tafseer-e-Usmani - At-Taghaabun : 9
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ١٘ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ کھول کر بیان کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے عَلٰي : پر (بعد) فَتْرَةٍ : سلسلہ ٹوٹ جانا مِّنَ : سے (کے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اَنْ : کہ کہیں تَقُوْلُوْا : تم کہو مَا جَآءَنَا : ہمارے پاس نہیں آیا مِنْ : کوئی بَشِيْرٍ : خوشخبری دینے والا وَّلَا : اور نہ نَذِيْرٍ : ڈرانے والا فَقَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگئے بَشِيْرٌ : خوشخبری سنانے والے وَّنَذِيْرٌ : اور ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اے کتاب والو ! آیا ہے تمہارے پاس رسول ہمارا کھولتا ہے تم پر9 رسولوں کے انقطاع کے بعد کبھی تم کہنے لگو کہ ہمارے پاس نہ آیا کوئی خوشی یا ڈر سنانے والا سو آچکا تمہارے پاس خوشی اور ڈر سنانے والاف 10 اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے11
9 یعنی ہمارے احکام و شرائع نہایت توضیح کے ساتھ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اس رکوع کے شروع سے " بنی اسرائیل " (یہود و نصاریٰ ) کے مختلف قسم کی شرارتوں اور حماقتوں کو بیان فرما کر یہ بتلایا تھا کہ اب ہمارا رسول تمہارے پاس آچکا جو تمہاری غلط کاریوں کو واضح کرتا ہے اور تم کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس پر متنبہ فرمایا کہ اب نور ہدایت کی طرف جانا دو چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل کرو اور مخلوق و خالق کے تعلق کے متعلق غلط عقیدے مت جماؤ۔ (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ) 5 ۔ المائدہ :17) سے یہاں تک اسی جزو کا بیان تھا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ نبی الانبیاء ﷺ پر ایمان لاؤ جو تمام انبیائے سابقین کے کمالات کے جامع اور شرائع الہٰیہ کے سب سے بڑے اور آخری شارح ہیں۔ اس جزو کا بیان اس آیت (قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ ) 5 ۔ المائدہ :19) میں کیا گیا ہے۔ 10 حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد تقریباً چھ سو برس سے انبیاء کی آمد کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا۔ ساری دنیا الا ما شاء اللہ جہل، غفلت اور اوہام و اہواء کی تاریکیوں میں پڑی تھی۔ ہدایت کے چراغ گل ہوچکے تھے۔ ظلم وعدوان اور فساد و الحاد کی گھٹا تمام آفاق پر چھا رہی تھی۔ اس وقت سارے جہان کی اصلاح کے لئے خدا نے سب سے بڑا " ہادی " اور " نذیر " و " بشیر " بھیجا، جو جاہلوں کو فلاح دارین کے راستے بتلائے۔ غافلوں کو اپنے انذار و تخویف سے بیدار کرے اور پست ہمتوں کو بشارتیں سنا کر ابھارے۔ اس طرح ساری مخلوق پر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ 11  یعنی تم اگر اس پیغمبر کی بات نہ مانو گے تو خدا کو قدرت ہے کہ کوئی دوسری قوم کھڑی کر دے جو اس کے پیغام کو پوری طرح قبول کرے گی اور پیغمبر کا ساتھ دے گی خدا کا کام کچھ تم پر موقوف نہیں۔
Top