Tafseer-e-Usmani - Al-Haaqqa : 47
فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِیْنَ
فَمَا مِنْكُمْ : تو نہ ہوتا تم میں سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی ایک عَنْهُ : اس سے حٰجِزِيْنَ : روکنے والا۔ باز رکھنے والا ہوتا
پھر تم میں کوئی ایسا نہیں جو اس سے بچا لے10
10  حضرت شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں " یعنی اگر جھوٹ بناتا اللہ پر تو اول اس کا دشمن اللہ ہوتا اور ہاتھ پکڑتا یہ دستور ہے گردن مارنے کا کہ جلاد اس کا داہنا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر پکڑ رکھتا ہے تاکہ سرک نہ جائے حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں " کہ " تقول " کی ضمیر رسول کی طرف لوٹتی ہے یعنی اگر رسول بالفرض کوئی حرف اللہ کی طرف منسوب کر دے یا اس کے کلام میں اپنی طرف سے ملا دے جو اللہ نے نہ کہا ہو تو اسی وقت اس پر یہ عذاب کیا جائے (العیاذ باللہ) کیونکہ اس کی تصدیق اور سچائی آیات بینات اور دلائل وبراہین کے ذریعہ سے ظاہر کی جا چکی ہے۔ اب اگر اس قسم کی بات پر فوراً عذاب اور سزا نہ کی جائے تو وحی الٰہی سے امن اٹھ جائے گا اور ایسا التباس و اشتباہ پڑجائے گا جس کی اصلاح ناممکن ہوجائے گی۔ جو حکمت تشریع کے منافی ہے۔ بخلاف اس شخص کے جس کا رسول ہونا آیات وبراہین سے ثابت نہیں ہوا، بلکہ کھلے ہوئے قرائن و دلائل اعلانیہ اس کی رسالت کی نفی کرچکے ہیں تو اس کی بات بھی بیہودہ اور خرافات ہے کوئی عاقل اس کو درخور اعتناء نہ سمجھے گا اور نہ بحمد اللہ دین الٰہی میں کوئی التباس و اشتباء واقع ہوگا۔ ہاں ایسے شخص کی معجزات وغیرہ سے تصدیق ہونا محال ہے، ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کرنے اور رسوا کرنے کے لیے ایسے امور بروئے کار لائے جو اس کے دعوئے رسالت کے مخالف ہوں۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ جس طرح بادشاہ ایک شخص کو کسی منصب پر مامور کر کے اور سند و فرمان وغیرہ دے کر کسی طرف روانہ کرتے ہیں۔ اب اگر اس شخص سے اس خدمت میں کچھ خیانت ہوئی یا بادشاہ پر کچھ جھوٹ باندھنا اس سے ثابت ہوا تو اسی وقت بلا توقف اس کا تدارک کرتے ہیں۔ لیکن اگر سڑک کوٹنے والا مزدور یا جھاڑو دینے والا بھنگی بکتا پھرے کہ گورنمنٹ کا میرے لیے یہ فرمان ہے یا میرے ذریعہ سے یہ احکام دیے گئے ہیں تو کون اس کی بات پر کان دھرتا ہے اور کون اس کے دعوں سے تعرض کرتا ہے۔ بہرحال آیت ہذا میں حضور ﷺ کی نبوت پر استدلال نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے جس میں ایک حرف یا ایک شوشہ نبی کریم ﷺ بھی اپنی طرف سے شامل نہیں کرسکتے۔ اور نہ باوجود پیغمبر ہونے کے آپ ﷺ کی یہ شان ہے کہ کوئی بات اللہ کی طرف منسوب کردیں جو اس نے نہ کہی ہو۔ تورات سفر استثناء کے اٹھارویں باب میں بیسواں فقرہ یہ ہے " لیکن وہ نبی ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جسکے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ " خلاصہ یہ ہے کہ جو نبی ہوگا اس سے ایسا ممکن نہیں (وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ) 2 ۔ البقرۃ :120)
Top