Tafseer-e-Madani - At-Talaaq : 6
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ١ۚ وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ١ۚ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰىؕ
اَسْكِنُوْهُنَّ : بساؤ ان عورتوں کو مِنْ حَيْثُ : جہاں سَكَنْتُمْ : تم رہتے ہو مِّنْ وُّجْدِكُمْ : اپنی دست کے مطابق وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ : اور نہ تم ضرر پہنچاؤ ان کو لِتُضَيِّقُوْا : تاکہ تم تنگ کرو۔ تنگی کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر وَاِنْ كُنَّ : اور اگر ہوں اُولَاتِ حَمْلٍ : حمل والیاں فَاَنْفِقُوْا : تو خرچ کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر حَتّٰى يَضَعْنَ : یہاں تک کہ وہ رکھ دیں حَمْلَهُنَّ : حمل اپنا فَاِنْ اَرْضَعْنَ : پھر اگر وہ دودھ پلائیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاٰتُوْهُنَّ : تو دے دو ان کو اُجُوْرَهُنَّ : ان کے اجر وَاْتَمِرُوْا : اور معاملہ کرو بَيْنَكُمْ : آپس میں بِمَعْرُوْفٍ : بھلے طریقے سے وَاِنْ : اور اگر تَعَاسَرْتُمْ : آپس میں کشمش کرو تم فَسَتُرْضِعُ : تو دودھ پلا دے لَهٗٓ اُخْرٰى : اس کے لیے کوئی دوسری
تم ان مطلقہ عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اس طرح تم ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ وضع کرلیں اپنے حمل کو پھر اگر وہ تمہارے لئے (بچے کو) دودھ پلائیں تو تم ان کو ان کی (مقرر کردہ) اجرتیں دے دیا کرو اور آپس میں مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو گے تو اس کے لئے کوئی اور عورت دودھ پلا لے گی
[ 23] معتدہ کے حق سکنی کا ذکر وبیان۔ سو اس سے زمانہ عدت میں عورت کو مسکن یعنی مکان دینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو تم وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو اپنی گنجائش کے مطابق۔ سو اس میں اپنی طاقت کے مطابق برتاؤ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے لفظ وجد مثلثلہ الفاء ہے یعنی اس کے پہلے حرف پر فتحہ ضمہ اور کسرہ تینوں حرکات درست ہیں اور اس کے معنی طاقت اور گنجائش کے آتے ہیں پس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ تم لوگ اپنی مطلقہ عورتوں کو اپنی گنجائش کے مطابق نفقہ وسکنی دینے کے پابند ہو کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر کسی کو کسی امر کا پابند نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بار میں ایک قاعدہ کلیہ اور اصول موضوعہ کے طور ارشاد فرمایا گیا لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ (البقرہ 286) سو یہ ایک اہم اور بنیادی اصول اور ضابطہ ہے کہ انسان اتنا ہی مکلف ہے جتنا کہ اس کے بس میں ہو بس سے بڑھ کر کوئی کسی کا مکلف نہیں ہوسکتا اور یہی تقاضا ہے عقل ونقل اور فطرت مستقیم کا اور مظہر ہے حضرت حق جل مجدہ کی رحمت و عنایت کا، سبحانہ تعالی۔ [ 24] عورتوں کو تنگ کرنے کی ممانعت کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم ان کو نقصان مت پہنچا تنگ کرنے کے لیے یعنی دکھلاوے اور خانہ پری کے لیے ان کو جگہ تو دے دی لیکن ان کو ایسی مشکلات میں ڈال دیا جائے کہ وہ تنگ آ کر نکلنے اور نان ونفقہ کا مطالبہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں کہ ایسا کرنا جو تمہارے لیے باعث وبال ہوگا اے لوگو والعیاذ باللہ کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی طاقت سے غلط فائدہ اٹھایا اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا وبال ہے والعیاذ باللہ۔ دنیا میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی۔ پس نہ تم لوگ ان سے کبھی جی چرانا اور نہ ہی کبھی ان کو اپنے اوپر کوئی بوجھ سمجھنا کہ ان میں سراسر خود تمہارا ہی نفع اور فائدہ ہے۔ وبا اللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھے۔ آمین ثم آمین۔ یارب العالمین ویا ارحم الراحمین۔ ویا اکرم الاکرمین، یامن بیدہ ملکوت کل شی وھو یجیر ولا یجار علیہ۔ [ 25] حاملہ کے نان ونفقہ کا حکم وارشاد۔ سو اس سے حاملہ کو وضع حمل تک نان نفقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے۔ پس معتدہ حاملہ کو نفقہ اور سکنی دینا لازم ہے طلاق کی صورت میں تو باتفاق علماء لازم ہے اور وفات کی صورت میں بھی بعض علمائے کرام کے نزدیک یہی حکم ہے لیکن آئمہ ثلاثہ یعنی امام اعظم امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اس کا حق اسے اس کے اپنے حصہ اور نصیب سے دیا جائے۔ (قرطبی، مراغی، اور معارف وغیرہ) بہر کیف حاملہ کے بارے میں خاص طور پر ہدایت فرمائی گئ کہ ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک وہ حمل سے فارغ ہوجائیں اور اس کو اس خاص اہتمام سے ذکر کرنے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ ان کی مدت طویل بھی ہوسکتی ہے اور بعض حالات میں ان کے مصارف کی نوعیت بھی مختلف ہوسکتی ہے اس لیے ان کے بارے میں خاص طور پر یہ ہدایت فرمائی گئی تاکہ کہیں کوئی اس کو بوجھ نہ سمجھنے لگے اور اس کے لیے حیلے بہانے نہ ڈھونڈنے لگے۔ سبحان اللہ۔ کیسی کیسی باریکیاں اور رحمتیں ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں، سبحانہ وتعالی۔ [ 26] رضاعت سے متعلق بعض خاص احکام کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر اگر وہ تمہارے لیے دودھ پلائیں تم ان کو ان کی اجرت دے دیا کرو۔ یعنی ان کو طلاق ہوجانے کی صورت میں سو اس میں وضع حمل کے بعد کے مرحلے کا ذکر ہے یعنی اگر وہ بچے کو جنم دینے کے بعد تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو تم انکو اس کا معاوضہ دو یعنی وہ معاوضہ جو تم نے باہمی مشورہ سے انکو دینا طے کیا ہے کہ یہ ان کا حق ہے اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دینا ایک طبعی اور طے شدہ امر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر تم ان کی بجائے دوسری عورتوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ گے تو آخر ان کو بھی ان کی اجرت دینا پڑے گی تو پھر ان کو ان کے حق اجرت سے محروم کرنا کس طرح روا ہوسکتا ہے ؟ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس تم لوگ ان کو ان کی اجرت دے دیا کرو کہ یہ ان کا حق ہے اور حقدار کو اس کا حق دینا تقاضا ہے عقل ونقل دونوں کا، وبا اللہ التوفیق لما یحب ویرید علی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال۔ [ 27] باہمی مشورے کی تعلیم و تلقین کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم آپس میں مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو۔ یعنی دستور کے مطابق۔ جس میں ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا جذبہ کارفرما ہو نہ کہ شدت وسختی اور دوسرے کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا جذبہ نیز یہ کہ اس سے اولاد کی بہتری مقصود ہو کہ ان کی جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے اچھی تربیت ہو اور مال کو اس ضمن میں اصل مقصود اور رکاوٹ نہیں بنانا چاہیے نہ تو باپ دودھ پلائی کی اجرت اور دوسرے نفقات کے سلسلہ میں سختی اور ٹال مٹول سے کام لے اور نہ ہی عورت کی طرف سے اجرت میں زیادتی کا مطالبہ کرکے باپ کو حرج اور تنگی میں ڈالا جائے بہر کیف اس بارہ ہدایت فرمائی گئی کہ معاوضہ سے متعلق باہمی مشورے سے دستور کے مطابق ایک قرار داد طے کرلو جو وقت کے تقاضوں اور مرد کے معیار زندگی کے مطابق ہو اور اس کے مطابق جس کا جو حق بنے وہ اس کو پورے کا پورا دے دیا کرو تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ [ 28] تنگی کی صورت میں حکم کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم آپس میں ایک دوسرے پر تنگی کرو گے تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلا لے گی اور آپس کی تنگی اس طرح کہ مثلا عورت دودھ پلانے کی حد سے زیادہ اجرت مانگنے لگے جو مراد ادا نہ کرسکے یا مرد اس کو استحقاق سے بھی کم دینے پر اتر آئے وغیرہ سو تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ باہم نرمی اور رواداری کا معاملہ کرنا چاہیے نہ عورت مرد کی حثییت سے زیادہ اجرت طلب کرے اور نہ مرد ماں کی ممتا کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور اسے اس کا حق واجب بھی دینے کو تیار نہ ہو سو کوئی بھی ایسا نہ کرے کہ یہ زیادتی ہے اور یہ اس معروف کے معارض و منافی ہے جو اس ضمن میں مامور و مطلوب ہے اور عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے تاکہ ہر صاحب حق کو اس کا حق مل سکے بہر کیف ارشاد فرمایا گیا اور طرفین کے لیے تنبیہ و تذکیر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تنگی وسختی کا معاملہ کرو گے تو تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کے لیے کوئی اور ماں دودھ پلا لے گی پس تمہیں آپس میں ایک دوسرے پر سختی اور تنگی سے کام لینے کی روش سے احتراز کرنا چاہیے سو اس ارشاد میں سختی کرنے پر ایک گو نہ ماں پر ملامت ہے جیسا کہ محاورے میں کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو کوئی دوسرا کرلے گا اور ماں کی تخصیص اس ضمن میں اس لیے کی گئی کہ اس سے مطالبہ دودھ کا ہے جو کہ ماں کا کام ہے اور عادت وعرف کے مطابق ماں کی ممتا کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے بچے کو از خود یوں ہی دودھ پلائے دوسری طرف اس میں شوہر کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ اگر تم اس کو اس کا حق نہیں دو سگے تو جو دوسری عورت دودھ پلائے گی اس کو بھی تو آخر تمہیں دودھ پلائی کی مزدوری دینا ہی پڑے گی تو پھر بہتر یہی ہے کہ اسی کی مزدوری اس کو اچھے طریقے سے اور معروف دستور کے مطابق دے دی جائے کہ اس کا حق بھی زیادہ بنتا ہے اور اس سے بچے کے لیے خیر خواہی کی امید وتوقع بھی زیادہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اسی سے متولد ہوا ہے جبکہ دوسری عورت سے ایسی توقع بہر حال اس درجے کی نہیں ہوسکتی پس دونوں ایک دوسرے کے لیے نرمی کا برتاؤ کریں کہ اسی میں ان دونوں کا بھلا ہے وبا اللہ التوفیق لما یحب ویرید علی ما یحب ویرید بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاہ۔ وھوالھادی الی سواء السبیل فعلیہ نتوکل بہ نستعین یامن بیدہ ملکوت کل شی وھو یجیر ولا یجار علیہ۔
Top