Ruh-ul-Quran - At-Talaaq : 6
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰى یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ١ۚ وَ اْتَمِرُوْا بَیْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ١ۚ وَ اِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗۤ اُخْرٰىؕ
اَسْكِنُوْهُنَّ : بساؤ ان عورتوں کو مِنْ حَيْثُ : جہاں سَكَنْتُمْ : تم رہتے ہو مِّنْ وُّجْدِكُمْ : اپنی دست کے مطابق وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ : اور نہ تم ضرر پہنچاؤ ان کو لِتُضَيِّقُوْا : تاکہ تم تنگ کرو۔ تنگی کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر وَاِنْ كُنَّ : اور اگر ہوں اُولَاتِ حَمْلٍ : حمل والیاں فَاَنْفِقُوْا : تو خرچ کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر حَتّٰى يَضَعْنَ : یہاں تک کہ وہ رکھ دیں حَمْلَهُنَّ : حمل اپنا فَاِنْ اَرْضَعْنَ : پھر اگر وہ دودھ پلائیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَاٰتُوْهُنَّ : تو دے دو ان کو اُجُوْرَهُنَّ : ان کے اجر وَاْتَمِرُوْا : اور معاملہ کرو بَيْنَكُمْ : آپس میں بِمَعْرُوْفٍ : بھلے طریقے سے وَاِنْ : اور اگر تَعَاسَرْتُمْ : آپس میں کشمش کرو تم فَسَتُرْضِعُ : تو دودھ پلا دے لَهٗٓ اُخْرٰى : اس کے لیے کوئی دوسری
اور انھیں سکونت دو جہاں تم رہتے ہو اپنے مقدور کے مطابق اور ان کو ضرر نہ پہنچائو تاکہ تم انھیں تنگ کردو اور گر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو حتیٰ کہ وہ اپنے حمل جَن دیں، پس اگر وہ تمہارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو انھیں ان کا معاوضہ دو ، اور بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) مشورے سے طے کرلو، اور اگر تم آپس میں ضد کرو تو اس کے لیے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی
اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّـقُوْا عَلَیْھِنَّ ط وَاِنْ کُنَّ اُوْلاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ج فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰ تُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ ج وَاْتَمِرُوْا بَیْنَـکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ج وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَـہٗٓ اُخْرٰی۔ لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ط وَمَنْ قُدِرَعَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّـآ اٰ تٰـہُ اللّٰہُ ط لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ مَـآ اٰ تٰـھَا ط سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۔ (الطلاق : 6، 7) (اور انھیں سکونت دو جہاں تم رہتے ہو اپنے مقدور کے مطابق اور ان کو ضرر نہ پہنچائو تاکہ تم انھیں تنگ کردو اور گر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو حتیٰ کہ وہ اپنے حمل جَن دیں، پس اگر وہ تمہارے لیے بچے کو دودھ پلائیں تو انھیں ان کا معاوضہ دو ، اور بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) مشورے سے طے کرلو، اور اگر تم آپس میں ضد کرو تو اس کے لیے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔ چاہیے کہ کشادگی والا اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہے وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے، اللہ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا، مگر اسی قدر جتنا اسے دیا ہے۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگدستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرمائے۔ ) عورت کو طلاق کے بعد اسے گھر میں رکھنے کی وضاحت اس سے پہلے حکم دیا گیا ہے کہ مطلقہ عورتوں کو عدت کے دوران گھروں سے نہ نکالو۔ اب اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انھیں صرف ساتھ رکھنا کافی نہیں بلکہ اس طرح انھیں رہنے کی سہولت ملنی چاہیے جس سے ان کی خودداری مجروح نہ ہو بلکہ شوہر کی آمدنی اور اس کے رہن سہن کا جو معیار ہے اس کے مطابق گھر میں اس کے لیے رہائش کا انتظام ہونا چاہیے۔ کیونکہ ” وُجْد “ کے معنی یافت کے ہیں۔ اور آدمی کا معیارِزندگی اس کی آمدنی کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی کا لحاظ مطلقہ عورتوں میں بھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ طلاق کے بعد مطلقہ عورت کو بیڈ روم سے نکال کر سرونٹ کو ارٹر میں منتقل کردیا جائے۔ اور جو کھانا گھروں میں نوکروں کو دیا جاتا ہے وہ کھانا انھیں بھی دیا جائے۔ عورت کے احترام کا حکم مزید فرمایا کہ مطلقہ بیوی کو گھر میں تنگ کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ کی جائے۔ مثلاً شوہر اس کو خونخوار نگاہوں سے دیکھے، اہل خانہ جب موقع ملے الفاظ کے تیر چلائیں اور اس حد تک اسے آزردہ کردیں کہ وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عدت شوہر کے گھر گزارنے کا جس مصلحت کے تحت حکم دیا گیا تھا وہ مصلحت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اور اسلام طلاق کے بعد بھی گھر کو باقی رکھنے کے جو امکانات پیدا کرنا چاہتا ہے وہ ختم ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ گھر میں رکھنا اور عزت سے رکھنا اور ان کے نفقہ کا معقول انتظام کرنا اور ان کے جذبات کا لحاظ رکھنا یہ تمام عورتوں کے بارے میں یکساں ہے۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ جن عورتوں سے ابھی رجوع ہوسکتا ہے یعنی انھیں طلاق رجعی دی گئی ہے وہ شوہر کے سامنے آجاسکتی ہیں بلکہ انھیں گھر میں رکھنے کی حکمت ہی یہ ہے کہ شاید شوہر اپنے ارادے میں تبدیلی پیدا کرلے۔ یا بیوی اپنی رویئے کی اصلاح کرلے۔ لیکن وہ مطلقات جنھیں طلاق بائن یا تین طلاق دی گئی ہوں انھیں اپنے سابقہ شوہر سے پردہ کرنا چاہیے۔ لیکن سکنیٰ اور نفقہ میں دوسری مطلقات اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ اس آیت کا عموم تمام عورتوں کے لیے یکساں ہے جس سے سکنیٰ اور نفقہ سب کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) نے اس آیت کا یہی مفہوم لیا تھا۔ اور حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت کو انھوں نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ ہم ایک عورت کی روایت کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی سنت کیخلاف قبول نہیں کرسکتے۔ اور اللہ تعالیٰ کی کتاب سے مراد یہی آیت ہے۔ اور جہاں تک سنت کا تعلق ہے اس سے مراد وہ حدیث ہے جو خود حضرت عمر بن خطاب ( رض) سے طحاوی، دارقطنی اور طبرانی نے روایت کی ہے کہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے اس مطلقہ کے لیے جس کو تین طلاقیں دے دی گئی ہیں نفقہ اور سکنیٰ واجب کیا ہے۔ حاملہ مطلقہ کے بارے میں حکم اس آیت میں مزید یہ حکم دیا گیا کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہے اور اس کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہے اور اس کی عدت چونکہ وضع حمل ہے جو بعض دفعہ عام عدت سے بھی طویل ہوتی ہے تو بعض دفعہ طبیعتوں پر یہ بات گراں گزرتی ہے کہ اس خاتون کو طلاق تو ہوچکی اب اتنی لمبی مدت کے لیے اس کے نفقہ اور سکنیٰ کا کون انتظام کرے۔ اس لیے اس کی وضاحت فرما دی کہ جو عورتیں حاملہ ہیں ان کو اگر طلاق دے دی گئی ہے تو جب تک وضع حمل نہیں ہوتا شوہر کے ذمہ اس کا نفقہ بھی ہے اور سکنیٰ بھی۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ وضع حمل سے پہلے صرف نفقہ ہی کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ اس دوران کوئی نہ کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے تو بچے کو بچانے کے لیے مزید بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ تو اس کا بار بھی شوہر کے ذمہ ہوگا۔ طلاق کے بعد وضاحت کے بارے میں ہدایات وضع حمل کے بعد مطلقہ بیوی کو طلاق ہوگئی کیونکہ اس کی عدت ختم ہوگئی اب اس کا شوہر سے کوئی تعلق نہیں اور شوہر پر جو اس کے نفقہ کی ذمہ داری تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔ لیکن جو بچہ پیدا ہوا ہے اس کی ذمہ داری تو بہرحال شوہر پر ہے۔ اب اگر اس خاتون کو طلاق نہ ہوئی ہوتی اور یہ اپنے شوہر کے نکاح میں ہوتی تو اس پر بچے کو دودھ پلانا لازم تھا۔ سورة البقرۃ میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اگر وہ اس کا معاوضہ طلب کرے تو اس کا معاوضہ لینا بھی حرام ہے اور دینا بھی حرام ہے۔ کیونکہ یہ رشوت کے حکم میں ہے۔ لیکن وضع حمل کے بعد اب چونکہ بیوی نکاح سے نکل گئی ہے، اب اگر یہ اس کے بچے کو دودھ پلائے گی تو وہ دودھ پلانے کا معاوضہ طلب کرسکتی ہے۔ کیونکہ اس کا دودھ اس کی ملکیت ہے اور یہ اپنی ملکیت میں مکمل اختیار رکھتی ہے چاہے بچے کو پلائے یا نہ پلائے۔ اور اگر اس کا معاوضہ طلب کرے تو وہ اس کا جائز حق ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اس سلسلے میں سابقہ شوہر اور مطلقہ کے درمیان ایک قرارداد ہوجانی چاہیے کہ وہ مشاورت سے طے کرلیں کہ دودھ پلانے کی اجرت کیا ہوگی کیونکہ ائتمار کے لفظی معنی باہم مشورہ اور ایک دوسرے کی بات قبول کرنے کے ہیں۔ اور اس کا دونوں کو حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ محض ضد کرکے اس معاملے میں اڑچن پیدا نہ کریں۔ یعنی بیوی عام اجرت سے زیادہ نہ مانگے اور شوہر عام اجرت کے مطابق دینے سے انکار نہ کرے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا معاملہ کریں۔ یعنی شوہر کو عام دستور کا لحاظ کرنا چاہیے اور بیوی کو مرد کے معیارِزندگی کا خیال کرنا چاہیے۔ مزید فرمایا کہ اگر دونوں کسی وجہ سے اس معاملے کو طے کرنے میں زحمت محسوس کریں یعنی مطلقہ بیوی بچے کو دودھ پلانے سے انکار کردے یا وہ اتنی اجرت مانگے کہ شوہر اس اجرت کا متحمل نہ ہوسکتا ہو یا دینا نہ چاہتا ہو، تو پھر دونوں کو قضائً مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ بچہ اگر کسی دوسری عورت کا دودھ قبول کرنے سے انکار کردے تو پھر اس مطلقہ خاتون کو جو اس بچے کی ماں ہے دستور کے موافق اجرت دے کر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مطلقہ پر خرچ کرنے کا معیار دوسری آیت میں بیوی کے نفقہ کے سلسلے میں اس کی عدت کے دوران یا دودھ پلانے کے دوران شوہر کے لیے خرچ کا معیار بتادیا گیا ہے کہ اگر وہ کشادہ حال ہے یعنی دولت مند ہے تو اسے اپنی کشادہ حالی کے معیار کے مطابق خرچ کرنا چاہے اور اگر وہ تنگ حال ہے تو پھر وہ اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرے۔ کشادہ حال کو اپنے معیارِزندگی سے نیچے نہیں آنا چاہیے اور غریب پر اس کی مالی حالت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر شخص پر اس کی حالت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہے۔ اس نے شرعی احکام زندگی کی سہولت کے لیے دیئے ہیں، زندگی کو عذاب بنانے کے لیے نہیں دیئے۔ البتہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک تنگدست آدمی کے لیے معمولی خرچ کرنا بھی بوجھ بن جاتا ہے۔ اور اس کے دل میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ذمہ داریاں تو ڈالی ہیں لیکن میری حالت بدلنے کے لیے مجھ پر کرم نہیں فرمایا۔ اس لیے آخر میں فرمایا کہ غریب اپنی حالت کی وجہ سے دل تنگ نہ کریں، اگر وہ اپنی حالت پر قانع و صابر اور تنگ حالی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی حدود قائم رکھنے کا اہتمام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے تنگی کے بعد آسانی پیدا فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جو شخص بھی غربت اور احتیاج کے باوجود محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ایثار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔
Top