Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 60
وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍ١ؕ وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَالْقَوَاعِدُ : اور خانہ نشین بوڑھی مِنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے الّٰتِيْ : وہ جو لَا يَرْجُوْنَ : آرزو نہیں رکھتی ہیں نِكَاحًا : نکاح فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْهِنَّ : ان پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ يَّضَعْنَ : کہ وہ اتار رکھیں ثِيَابَهُنَّ : اپنے کپڑے غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ : نہ ظاہر کرتے ہوئے بِزِيْنَةٍ : زینت کو وَاَنْ : اور اگر يَّسْتَعْفِفْنَ : وہ بچیں خَيْرٌ : بہتر لَّهُنَّ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی اور وہ دوپٹے اتار کر سر ننگا کرلیا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں نہ ظاہر کریں اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور خدا سنتا جانتا ہے
60۔ صحیح 3 ؎ بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پردہ کی آیت کے نازل ہونے کی بعد حضرت سودہ ؓ ایک رات چادر اوڑھ کر نکلیں اور حضرت عمر ؓ نے ان کو دھمکایا اور آنحضرت ﷺ کو یہ مشورہ دیا کہ پردہ کے حکم کے ساتھ یہ حکم بھی دیا جائے کہ چادر اوڑھ کر بھی عورتیں گھر سے باہر نہ نکلا کریں ‘ اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب کی آیتیں نازل فرما کر اس پر یہ حکم دیا کہ عورتوں کے لیے پردہ کا جو حکم نازل ہوا ہے وہ کافی ہے ‘ جماعت کی نماز یا کسی اور ضرورت سے دوپٹہ کے اوپر چادر یا برقعہ اوڑھ کر اور اس میں منہ چھپا کر عورتوں کے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ یہ حکم جوان بوڑھی سب عورتوں کے لیے تھا ‘ اس آیت میں فرمایا ‘ وہ بوڑھی عورتیں جن کو نکاح کی خواہش نہیں ہے ‘ ان پر جوان عورتوں کی سی پردہ کی تاکید نہیں ہے اگر وہ کسی موقع پر دوپٹہ کے اوپر کی چادر اتار ڈالیں تو جائز ہے لیکن اس میں سے کوئی عزت غیر مرد کو اپنا کچھ بناؤ دکھانے کے لیے دوپٹہ کے اوپر کی چادر نہ اتارے ‘ پھر فرمایا یہ بوڑھی عورتیں بھی اگر دوپٹہ کے اوپر چادر کے اوڑھنے کی عادت کو جاری رکھیں تو ان کے حق میں بہتر ہے کیونکہ اس میں احتیاط زیادہ ہے ‘ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زبانی باتوں کو خوب سنتا اور ان کے دل میں کے بھیدوں کو خوب جانتا ہے اس لیے ان میں کی کوئی عورت اگر اپنے آپ کو زبانی تو بوڑھی بتلادے گی اور اس کے دل میں کچھ اور بھید ہوگا تو اس کی زبانی باتیں اور دل کا بھید سب کچھ اللہ کو معلوم ہے ‘ عورت اپنے کسی چھپے ہوئے بناؤ سنگھار کو جتلادے تو اس کو تبرج کہتے ہیں ‘ مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول نے ایسی عورتوں کو دوزخی فرمایا ہے جو ایسا کپڑا پہنتی ہیں جس سے ان کا کچھ بدن ڈھکتا ہے اور کچھ کھلا رہتا ہے ‘ اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ حال کے رواج کے مطابق جو عمر رسیدہ عورتیں ایسے مہین کپڑے کا دوپٹہ اوڑھتی اور کرتہ پہنتی ہیں جس سے ان کا کچھ بدن ڈھکتا اور کچھ کھلا رہتا ہے تو ایسی عورتوں کو اجنبی مرد کے سامنے دوپٹہ کے اوپر موٹے کپڑے کی چادر کا اوڑھنا ضروری ہے۔ (3 ؎ صحیح بخاری مع فتح الباری ص 304 ج 4 تفسیر سورة الاجزاب ) (1 ؎ الترغیب و الرہیب ص 95 ج 3 ومشکوٰۃ باب مالایضمن من الجنایات )
Top