Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 5
تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ
تَنْزِيْلَ : نازل کردہ ہے الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم : زبردست ، رحم فرمانے والی ہستی کی طرف
(یہ خدائے) غالب (اور) مہربان نے نازل کیا ہے
5 تا 11۔ اوپر قرآن شریف کی قسم کھا کر یہ اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ جس قرآن کی قسم کھائی ہے وہ قرآن ایسے اللہ کا اتارا ہوا ہے جو قرآن کے جھٹلانے والوں کو سزا دینے میں بڑا زبردست اور قرآن کے ماننے والوں کے حق میں بڑا صاحب رحم ہے پھر قرآن کے نازل کرنے کا سبب بیان فرمایا کہ قرآن ایسے لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرانے کے لیے اتارا گیا ہے کہ جن میں بہت مدت سے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اس واسطے ان میں موروثی غفلت چلی آتی ہے پھر فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے جو لوگ اللہ کے علم میں نافرمان ٹھہر چکے ہیں وہ اس قرآن کو نہیں مانیں گے اس لیے اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں کے حال پر تم کو کچھ افسوس نہ کرنا چاہئے اب آگے ان نافرمان لوگوں کی مثال بیان فرمائی کہ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کی گردن میں طوق ڈال دیا گیا ہو اور اس کا سر آسمان کی طرف اونچا ہو کر رہ جائے اور اس کو زمین پر کی کوئی چیز نظر نہ آوے ‘ گر دن میں طوق اس طرح ڈالا جاتا ہے کہ اس میں دونوں ہاتھ بھی جکڑدئے جاتے ہیں اس لیے جب طوق مع دونوں ہاتھوں کے ٹھوڑی تک ہوا تو ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے پھنس کر گردن اونچی ہوگئی اور آنکھیں آسمان کو لگ گئیں ‘ اس مطلب کو مقمحون کے لفط سے ادا فرمایا گیا ہے اقماح کے معنے سر اونچا کردینے کے ہیں اونٹ جب پانی پر جا کر گردن اونچی کرلیتا ہے اور بانی نہیں پیتا تو ایسے موقع پر عرب لوگ بعیر قامح بولتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کی دوسری مثال یہ بیان فرمائی کہ ان کے آگے پیچھے دیوار اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے یہ لوگ آگے پیچھے کی چیز تو درکنار دیوار پر کی چیز کو ہی نہیں دیکھ سکتے پھر فرمایا کہ ان لوگوں کی گمراہی کا جب یہ حال ہے تو قرآن کی آیتوں میں ان کے بھلے برے کو جو جتلایا گیا ہے اس کو یہ لوگ کسی طرح ماننے والے نہیں اس لیے ان کو عذاب آخرت سے ڈرانا اور نہ ڈرانا یکساں ہے ‘ معتبر سند سے ترمذی اور نسائی کے حوالہ 1 ؎ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے (1 ؎ مشکوۃ باب الاستغفار والتوبۃ مع تنیقح الرواۃ ص 82 ج 2) کہ گناہوں کی کثرت سے آدمی کے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے جس کے سبب سے اس کے دل پر نیک بات کا اثر نہیں ہوتا ‘ اس حدیث سے وسواء علیھمء انذر تھم ام لم تنذرھم لایومنون کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرانا اور نہ ڈرانا یکساں ہے علم الٰہی میں جن لوگوں کا راہ راست پر آنا قرار یا چکا ہے اب ان کا حال بیان فرمایا کہ اگرچہ انہوں نے بھی عذاب آخرت کو آنکھوں سے نہیں دیکھا (2 ؎ مشکوۃ باب الاستغفار والتوبہ فصل اول) لیکن اللہ کے کلام کا یقین ان کے دل میں ایسا جم گیا ہے کہ بن دیکھے عذاب کا خوف بھی ان کو نافرمانی کے کاموں سے روکتا ہے اب اس خوف کا نتیجہ بیان فرمایا کہ ایسے لوگوں کے حق میں گناہوں کی معافی کا اور تھوڑی سی نیکی کے بڑے اجر کا اللہ کا وعدہ ہے اے رسول اللہ کے تم اللہ کا یہ وعدہ خوشخبری کے طور پر ایسے لوگوں کو سنا دو 1 ؎ صحیح مسلم میں ابوذر ؓ کی ایک بڑی حدیث قدسی ہے (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 65‘ 566 ج 3 و تفسیر الدر المنثور ص 260 ج 5) جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا توبہ استغفار کرنے والے لوگوں کے گناہ معاف کرنے کو اللہ تعالیٰ ہر وقت موجود ہی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی اوپر گزر چکی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ نعمتیں رکھی ہیں جو نہ کسی نے دنیا میں آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ‘ یہ حدیثیں فبشرہ بمغفرۃ واجر کریم کی گویا تفسیر ہیں۔
Top