Ruh-ul-Quran - Yaseen : 5
تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ
تَنْزِيْلَ : نازل کردہ ہے الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم : زبردست ، رحم فرمانے والی ہستی کی طرف
اس قرآن کو نہایت اہتمام سے اتارا ہے زبردست رحم والے نے
تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِالرَّحِیْمِ ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّـآ اُنْذِرَ اٰبَـآؤُھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 5، 6) (اس قرآن کو) نہایت اہتمام سے اتارا ہے زبردست رحم والے نے۔ تاکہ آپ خبردار کریں ایک ایسی قوم کو جن کے باپ دادا کو خبردار نہیں کیا گیا، پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ) قرآن کریم کی عظمت و اہمیت گزشتہ آیتوں میں قرآن کو شاہد بنا کر اور جس کی قسم کھا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ یقینا اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے ہیں اور صراط مستقیم پر ہیں، پیش نظر آیت کریمہ میں اسی قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے کی اہمیت و عظمت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ تَنْزِیْلَکا لفظ یہاں منصوب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں فعل محذوف ہے۔ اور پھر اس لفظ کا تعلق باب تفعیل سے ہے، جس کا معنی صرف اتارنا نہیں بلکہ نہایت اہتمام کے ساتھ درجہ بدرجہ اتارنا ہے۔ اور یہ ایسا اہتمام ہے جو کسی اور کتاب کے نزول میں ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس کو بوقت ضرورت موقع کی مناسبت سے اس طرح نازل فرمایا گیا کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کی آمد آنحضرت ﷺ کے لیے تقویت کا باعث بھی بنتی رہی اور اس کے مفہوم و معنی کو متعین کرنے، مراد کو واضح کرنے، ابہامات کو کھولنے اور مجملات کو تفصیلات میں بدلنے کا کام بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہا ہے۔ اور سوالات کا جواب بھی بروقت آپ پر نازل ہوتا رہا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا تاکہ ایمان لانے والوں کی ذہنی اور عملی تربیت ساتھ ساتھ ہوتی رہے اور جن لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے ان کے تحفظات کو بھی دور کیا جاتا رہے اور ان پر اتمامِ حجت بھی ہوتا رہے۔ اور مزید یہ کہ جس ذات نے اس قرآن عظیم کو اتارا ہے اس کی دو صفتوں کا حوالہ دے کر ایک عظیم حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ان دو صفات میں سے پہلی صفت عزیز ہے۔ یعنی جس ذات نے اس قرآن کو اتارا ہے وہ غالب ہے، وہ بےپناہ قدرت کی مالک ہے، اس علم کی نارسائی کے ہر عیب سے پاک ہے، وہ اپنی مخلوقات کی کسی ضرورت سے بیخبر نہیں۔ اس نے نوع انسانی کی ضرورتوں کو جانتے ہوئے اس کتاب کو اتارا ہے۔ تو جو لوگ اس کی تکذیب کرنے کی جسارت کریں انہیں ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ یہ کتاب کسی سائل کی درخواست نہیں کہ جس کے ساتھ جو سلوک بھی کیا جائے کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ یہ ایک عزیز و مقتدر ذات کا فرمان واجب الاذعان ہے جسے بہرصورت غالب اور نافذ ہونا ہے۔ انکار کرنے والے ممکن ہیں یہاں بھی پکڑے جائیں، ورنہ قیامت کے دن تو ان کو کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج ان سرکشوں کو ڈھیل کیوں دی جارہی ہے اور ان پر عذاب کیوں نہیں نازل ہورہا۔ اس کے لیے پروردگار کی دوسری صفت لائی گئی کہ وہ عزیز ہونے کے ساتھ ساتھ رحیم بھی ہے۔ وہ جس طرح اس کتاب پر ایمان لانے والوں کے ساتھ رحمت کا سلوک کرتا ہے اور دنیا میں بھی ان کو سرفرازی دیتا ہے اور آخرت میں بھی بےپایاں رحمتوں سے نوازے گا۔ اسی طرح اس کی تکذیب کرنے والے بھی محض اس لیے آج تک بچے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی رحمت کا معاملہ کرتے ہوئے ڈھیل پہ ڈھیل دیتا چلا جارہا ہے تاکہ وہ اگر سنبھلنا چاہیں تو سنبھل جائیں ورنہ ان پر اتمام حجت ہوجائے۔ اور قیامت کے دن ان کے چھوٹنے کی کوئی صورت نہ رہے۔ نزول قرآن کا مقصد اور بنی اسماعیل کو تنبیہ اگلی آیت کریمہ میں قرآن کے نازل ہونے کا اصل مقصد بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اس اہتمام کے ساتھ اس لیے اتارا ہے تاکہ آپ اس قوم کو اس کتاب کے ذریعے انذار کریں جن کی طرف آج تک کوئی خبردار کرنے والا اور کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ یعنی ان کے آباواجداد انذار نہیں کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سرزمین پر رہنے والوں کو اس تعلیم و ہدایت سے کبھی بہرہ ور نہیں کیا گیا جو آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے بعد براہ راست ان کی طرف کوئی رسول نہیں آیا۔ جہاں تک ہدایت کا تعلق ہے عرب کے دوسرے علاقوں میں اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول آتے رہے اور ان کی تعلیم اور ہدایت کا اثر ان لوگوں تک بھی پہنچتا رہا۔ اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب تک کہیں ہدایت کے اثرات رہتے ہیں وہاں وہ نئے رسول اور نبی کو مبعوث نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر قرآن کریم کی گواہی کے مطابق کچھ صحیفے بھی نازل ہوئے۔ اسی طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پر بھی ممکن ہے کہ کچھ صحائف نازل ہوئے ہوں۔ لیکن اہل عرب نے ان صحیفوں کو باقی نہیں رکھا۔ البتہ ان دونوں پیغمبروں کی زبانی ہدایات کا کسی نہ کسی حد تک ان کے اندر چلن رہا۔ اور ان کی ہمسائیگی میں بنی اسرائیل میں جو رسول مبعوث ہوتے رہے ان کے اثرات بھی ان تک پہنچتے رہے۔ اسی طرح حضرت شعیب اور حضرت ہود (علیہما السلام) کی تعلیمات کا کچھ نہ کچھ حصہ ان تک پہنچا۔ اس لیے ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے بالکل محروم تھے۔ البتہ یہ بات ضرور صحیح ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے بعد براہ راست ان کی طرف کوئی رسول نہیں آیا۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں جس رسول کی بعثت کی دعا مانگی تھی اور جس امت مسلمہ کے اٹھائے جانے کی ابتدا کی تھی اس کا ٹھیک وقت یقینا وہی ہوسکتا تھا جب کہ دیگر انبیاء و رسل کی ہدایت اور تعلیمات کا اثر قریب الاختتام ہوتا۔ اور ملت ابراہیمی کے اثرات بھی آخری لمحوں کو چھونے لگتے۔ چناچہ جیسے ہی یہ وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں کی طرف انہیں میں سے اس آخری نبی اور رسول کو بھیجا جو قیامت تک کے لیے پوری نوع انسانی کے لیے ہدایت کا سامان لے کر آیا۔ کیونکہ اب اگر اللہ تعالیٰ کے آخری رسول تشریف نہ لاتے اور قرآن کریم نازل نہ ہوتا تو پھر اہل عرب کے غفلت سے نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہ تھی۔
Top