Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 96
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ١ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے صَيْدُ الْبَحْرِ : دریا کا شکار وَطَعَامُهٗ : اور اس کا کھانا مَتَاعًا : فائدہ لَّكُمْ : تمہارے لیے وَلِلسَّيَّارَةِ : اور مسافروں کے لیے وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر صَيْدُ الْبَرِّ : جنگل کا شکار مَا : جب تک دُمْتُمْ : تم ہو حُرُمًا : حالت احرام میں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جو اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم جمع کیے جاؤگے
تمہارے لئے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کو کھانا حلال کردیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے۔ اور خدا سے جس کے پاس تم (سب) جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہو۔
(96 ۔ 99) ۔ اوپر ذکر تھا کہ احرام کی حالت میں جنگلی جانوروں کا شکار منع ہے ان آیتوں میں فرمایا کہ دریائی جانوروں کا شکار حالت احرام میں بھی جائز ہے۔ دریا کے لفظ معنوں میں یہاں ندیاں نالے تالاب سب داخل ہیں کیونکہ ان سب جگہ کا مچھلی کا شکار احرام کی حالت میں جائز ہے۔ دریائی جانوروں میں سے کون کون سے جانور حلال ہیں یہ بڑا اختلافی مسئلہ ہے جس کی تفصیل تفسیر کی کتابوں میں ہے 2 ؎۔ جو مچھلی کسی طرح کے شکار میں مری ہوئی ہاتھ آوے اس کے حلال ہونے میں علماء کا اختلاف نہیں ہے ہاں جو مچھلی خود مر کر پانی کے اوپر آجاتی ہے اس کے حلال ہونے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل ہر ایک مذہب کی فقہ کی کتابوں میں ہے 3 ؎۔ مسند امام احمد سنن اربعہ موطا وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دریا کا پانی پاک ہے اور پانی میں کا مردار جانور مثلاً مچھلی حلال ہے 4 ؎۔ بخاری ترمذی ابن حزیمہ وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 5 ؎۔ اس حدیث سے ان علماء کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو از خود مری ہوئی مچھلی کو حلال کہتے ہیں طعام کی تفسیر اکثر علماء نے اسی از خود مری ہوئی مچھلی کو قرار دیا ہے اور بعض علماء نے طعام کی تفسیر اس مچھلی کو قرار دیا ہے جو نمک لگا کر سکھائی جاتی ہے۔ احرام میں جنگلی جانوروں کے شکار کی ممانعت تاکید کے طور پر اس سورة میں تین جگہ آئی ہے۔ پہلی آیت غیر محلی الصید وانتم حرم میں پھر آیت یا ایھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم میں اور پھر ان آیتوں میں اور پھر فرمایا کہ اے مسلمانوں اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی سے ڈرو کیونکہ حشر کے دن ہر نیک و بد کی جواب دہی کے لئے تمہیں اللہ کے رو برو کھڑا ہونا پڑے گا مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ سے معاذ بن جبل ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو دیر تک کھڑا رہنا پڑے گا ایک تو تمام عمر کن کاموں میں مصروف رہا دوسرے یہ کہ جوانی میں کیا کیا تیسرے یہ کہ روپیہ پیسہ کیونکر کر کمایا اور کہاں خرچ کیا چوتھے یہ کہ دین کی جو باتیں سکھیں ان پر کیا عمل کیا 1 ؎۔ یہ حدیث آیت کے ٹکڑے واتقو اللہ الذین الیہ تحشرون کی گویا تفسیر ہے احرام حج یا عمرہ کی نیت سے کعبہ میں جانے کے لئے باندھا جاتا ہے۔ اس لئے احرام کے اور احرام کے شکار کے ساتھ کعبہ کا ذکر بھی فرمایا۔ کعبہ کو بزرگی کا گھر اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو طرح طرح کی بزرگی دی ہے مثلاً یہی ایک تنبیہ بڑی بزرگی ہے کہ وہاں کے جانوروں تک کو امن وامان میں رکھا گیا ہے اور کعبہ کی حدود میں شکار کی ممانعت فرمائی گئی ہے کعبہ سے مطلب تمام حرم ہے چناچہ صحیح حدیثوں میں اس کی صراحت آئی ہے۔ کعبہ کو لوگوں کے قیام کی جگہ اس لئے فرمایا کہ وہاں کے قیام میں دین دنیا کا لوگوں کا فائدہ ہے۔ دین کا فائدہ حج وعمرہ ہے جس سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں دنیا کا فائدہ یہ ہے کہ موسم حج میں طرح طرح کی تجارت میں لوگوں کو نفع ہوتا ہے اسلام سے پہلے عرب میں لوٹ مار بہت رہتی تھی مگر رجب ذی قعدہ ذدی الحج محرم یہ چار مہینے اس زمانہ میں بھی امن کے تھے اسی طرح جس قافلہ کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں وہ قافلہ بھی امن سے رہتا تھا اسی واسطے امن کے ذکر میں امن کے مہینوں اور قربانی کے جانوروں کا ذکر بھی فرمایا۔ قلائد قربانی کے وہ جانور جن کے گلے میں نشان کے لئے پٹہ ڈالا جاوے۔ اب آگے فرمایا یہ سب انتظام دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمائے تاکہ تم لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ زمین و آسمان میں کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے اسی واسطے ہر چیز کے موجود ہونے سے پہلے اس نے اپنے علم کے موافق ہر چیز کا مناسب انتظام ٹھیرایا ہے۔ پھر فرمایا ظاہر پوشیدہ نیک و بد لوگوں کے سب عمل اللہ کو معلوم ہیں اور نیک و بد کی جزاو سزا کا حال اللہ کے رسول نے لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے اب ہر ایماندار کو یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ نافرمانی کے جرم میں جس کسی کی پکڑہو گئی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بھی بہت سخت ہے اور جس کسی پر فرمانبرداری کے سبب سے اس کی رحمت ہوگئی تو اس کی رحمت بھی بڑی وسیع ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے غضب کا حال کسی فرمانبردار کو اچھی طرح معلوم ہوجاوے تو اس کی جست کی آرزو ایک دشوار چیز نظر آنے لگے اور اگر کسی نافرمان شخص کو اللہ کی رحمت کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاوے تو اس کو اپنی نجات آسانی نظر آنے لگے 1 ؎ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب کے سخت ہونے اور اس کی رحمت کے وسیع ہونے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی دوسری حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ اس کی رحمت اس کے غصہ پر غالب ہے 2 ؎۔ مطلب یہ ہے کہ گنہگار ایمانداروں کو بہ نسبت اس کے غصہ کے اس کی رحمت میں سے زیادہ حصہ ملنے والا ہے۔ یہ حدیث گنہگار ایمانداروں کے حق میں ایک بڑی خوشخبری کی چیز ہے۔
Top