Al-Qurtubi - Al-Maaida : 96
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ١ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے صَيْدُ الْبَحْرِ : دریا کا شکار وَطَعَامُهٗ : اور اس کا کھانا مَتَاعًا : فائدہ لَّكُمْ : تمہارے لیے وَلِلسَّيَّارَةِ : اور مسافروں کے لیے وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر صَيْدُ الْبَرِّ : جنگل کا شکار مَا : جب تک دُمْتُمْ : تم ہو حُرُمًا : حالت احرام میں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جو اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم جمع کیے جاؤگے
تمہارے لئے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کو کھانا حلال کردیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے۔ اور خدا سے جس کے پاس تم (سب) جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہو۔
آیت نمبر 96 اس میں تیرہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) احل لکم صید البحریہ حکم دریائی شکار کو حلال کرنے کا ہے اس سے مراد مچھلیوں کا شکار ہے یہاں بھی الصید بمعنی المصید ہے البحر کی طرف مضاف کیا گیا ہے کیونکہ وہ اس کے سبب سے ہے۔ البحر کے متعلق گفتگوسورئہ بقرہ میں گزرچکی ہے۔ متاعا مصدر کی بنا پر منصوب ہے یعنی متعتم بہ متاعا۔ مسئلہ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وطعامہ کا لفظ مشترک ہے اس کا اطلاق ہر کھانے پر ہوتا ہے اور خاص کھانے پر بھی ہوتا ہے جیسے صرف پانی اور گندم، صرف کھجور، صرف دودھ۔ کبھی اس کا اطلاق نیند پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے یہاں اس مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے اور وہ اس پر تیرنے لگے۔ دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) احل لکم صید البحر وطعامہ متاعا لکم ولسیارۃ الایہ کے تحت روایت کیا ہے کہ صیدہ سے مراد وہ ہے جو شکار کیا گیا اور طعامہ سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے۔ حضرت ابوہریرہ سے اس کی مثل مروی ہے یہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ طعام سے مراد اس کا مردہ ہے یہ اسی معنی میں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : طعام سے مراد وہ ہے جو اس کی وجہ سے نمکین کیا گیا ہو (1) (المحرر الوجیز، جلد 2 صفحہ 241) اور باقی ہو، ان کے ساتھ ایک جماعت کا بھی یہی خیال ہے۔ قوم نے کہا : طعام سے مراد وہ نمک ہے جو اس کے پانی اور دوسری نباتات سے حاصل ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : پانی پر مردہ تیرتی ہوئی مچھلی نہیں کھائی جائے گی اور دوسری مچھلیاں کھائی جائیں گی اور دریائی حیوانات میں صرف مچھلی کھائی جائے گی، یہی ثوری کا قول ہے ابو اسحاق فزاری کی روایت میں جو ان سے مروی ہے۔ حسن نے مردہ تیرنے والی مچھلی کو مکروہ قرار دیا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ انہوں نے بھی مکروہ کہا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ الجری (مچھلی جس کی پیٹھ چوڑی ہوتی ہے اور منہ بھی کھلاہوتا ہے اور اس کی ہڈی نہیں ہوتی) کا کھانا مکروہ کہا ہے ان سے ان تمام کا کھانا بھی مروی ہے اور یہی صحیح ہے۔ عبد الرزاق نے ثوری سے انہوں نے جعفر بن محمد سے انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ جراد (مکڑی) اور مچھلیاں پاک ہیں۔ حضرت علی سے مردہ تیرنے والی مچھلی کے کھانے میں اختلاف مروی ہے اور حضرت جابر سے اختلاف مروی نہیں انہوں نے اس کو مکروہ کہا ہے۔ یہ قول طائو وس، محمد بن سیرین، جابر بن زید کا ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے عموم کی حجت پکڑی ہے (آیت) حرمت علیکم المیتۃ اور ابو دائود اور دارقطنی کی حدیث سے استدلال کیا یہ جو حضرت جابر بن عبداللہ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے فرمایا :” جس سے دریا ہٹ جائے اور جس کو دریا باہر پھینک دے اور جس کو تم پانی پر مردہ اور تیرتا ہوا پائو تو اسے نہ کھائو “ (2) (سنن دارقطنی، باب الصید والذبائح جلد 4 صفحہ 267، 268 ) دار قطنی نے کہا : عبدالعزیز بن عبیداللہ عن وہب بن کیسان عن جابر کے سلسلہ میں منفرد ہے اور عبدالعزیز ضعیف ہے اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔ سفیان ثوری نے ابو الزبیر عن جابر عن النبی ﷺ کے سلسلہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ دارقطنی نے کہا : ابو احمد زبیری کے علاوہ ثوری سے مسند کسی نے روایت نہیں کی جب کہ وکیع، عدنیان، عبد الرزاق، مؤمل اور ابو عاصم وغیرہم نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان تمام نے ثوری سے موقوف روایت کی ہے۔ ابو دائود نے کہا : یہ حدیث ضعیف طریق سے مسند ذکر کی گئی ہے اور وہ طریق یہ ہے عن ابن ابی ذئب عن ابی الزبیر عن جابر عن ؓ عنہالنبی ﷺ (ا) (سنن ابی دائود، کتاب الاطعمہ، باب فی اکل الفانی من سمک، حدیث نمبر 3319، ضیاء القرآن پبلی کیشنز ) دار قطنی نے کہا : اسماعیل بن امیہ اور ابن ابی ذئب نے ابو الزبیر سے مرفوع روایت کی ہے اور مرفوع صحیح نہیں ہے۔ یحییٰ بن سلیم عن اسماعیل بن امیہ نے اس کو مرفوع ذکر کیا جب کہ دوسرے محدثین نے اس کو موقوف ذکر کیا ہے۔ امام مالک، امام شافعی، ابن ابی لیلی، اوزاعی اور اشجعی کی روایت میں ثوری نے کہا : دریا کی ہر چیز کھائی جائے گی خواہ مچھلی ہو یا دوسرے جانور ہوں، خواہ ان کو شکار کیا گیا ہو یا وہ مردہ پائے گئے ہوں، امام مالک اور ان کے متبعین نے نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد ھوالطہور ماءہ الحل میتۃ (1) (جامع ترمذی، کتاب الطہارت، جلد 1 صفحہ 11) (سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے) اس باب میں اسناد کی جہت سے حضرت جابر کی حدیث صحیح ترین ہے جو اس مچھلی کے بارے میں ہے جس کو عنبر کہا جاتا ہے یہ ثابت ہے اور اسے شیخین نے نقل کیا ہے اس میں ہے جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ہم نے اس مچھلی کا تذکرہ کیا آپ ﷺ نے فرمایا ـ:” یہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نکالا کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے کہ تم ہمیں بھی کھلائو “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الصید والزبائح، جلد 2، صفحہ 147 ) ۔ ہم نے اس میں سے گوشت رسول اللہ ﷺ کے بھیجاتو آپ ﷺ نے تناول فرمایا۔ یہ مسلم کے الفاظ کا ترجمہ ہے اور دار قطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں حضرت ابوبکر پر گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے فرمایا : مردہ پانی کے اوپر تیرنے والی مچھلی اس کے لیے حلال ہے (3) (سنن دارقطنی، کتاب الصید والزبائح، جلد 4، صفحہ 269) جو اس کے کھانے کا ارادہ کرے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں حضرت ابوبکر پر گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے پانی کے اوپر مردہ تیرتی ہوئی مچھلی کھائی اور ابو ایوب نے سند أروایت کی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے گروہ میں سمندر پر سوار ہوئے تو انہوں نے پانی پر مردہ مچھلی پائی انہوں نے ابو ایوب سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : کیا یہ پاک ہے یہ متغیر نہیں ہوئی ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ حضرت ابو ایوب نے کہا : تم اسے کھائو اور میرا حصہ رکھ لو وہ روزے سے تھے۔ جبلہ بن عطیہ سے سند أروایت کیا ہے کہ ابو طلحہ کے ساتھیوں نے پانی پر تیرتی ہوئی پائی انہوں نے اس کے متعلق ابو طلحہ سے پوچھاتو انہوں نے کہا : مجھے ہدیہ دے دو ۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا : مچھلی پاک ہے، مکڑی پاک ہے (4) (سنن دارقطنی، کتاب الصید والزبائح، جلد 4، صفحہ 270) دارقطنی نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے۔ یہ آثار اس کے قول کو رد کرتے ہیں جو ان کو مکروہ کہتا ہے اور آیت کے عموم کی تخصیص وہ جمہور کی حجت ہے مگر امام مالک نے پانی کے خنزیر کو مکروہ کہا ہے اس کے نام کی وجہ سے لیکن حرام نہیں کیا ہے فرمایا : تم خنزیر کہتے ہو۔ امام شافعی نے فرمایا : پانی کے خنزیر میں کوئی حرج نہیں۔ لیث نے فرمایا : سمندر کے مردہ میں کوئی حرج نہیں، فرمایا : اسی طرح پانی کا کتا اور پانی کے گھوڑے کا حکم ہے، فرمایا : پانی کا انسان اور پانی کا خنزیر نہیں کھایاجائے گا۔ مسئلہ نمبر 4۔ علماء کا اس حیوان میں اختلاف ہے جو خشکی اور پانی دونوں جگہوں پر رہتا ہے کیا اس کا شکار محرم کے لیے حلال ہے یا نہیں ؟ امام مالک، ابو مجلز، عطا، سعید بن جبیر وغیرہم نے فرمایا : ہر وہ جانور جو خشکی میں زندگی گزارتا ہے اور اس کے لیے اس میں زندگی ہے تو وہ خشکی کا شکار ہے اگر محرم نے اسے قتل کیا تو فدیہ دے گا۔ ابو مجلز نے اس میں مینڈک، کچھوے اور کیکڑے کا اضافہ کیا ہے۔ مینڈک اور اس کی اجناس امام ابوحنیفہ کے نزدیک حرام ہیں۔ امام شافعی کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مینڈک کو کھانا جائز نہیں اور اس کا قول ان چیزوں میں مختلف ہے جو خشکی میں رہتے ہیں اور ان کے مشابہ ہیں جنہیں نہیں کھایا جاتا جیسے خنزیر، کتا وغیرہ اور صحیح ان تمام چیزوں کا کھانا ہے، کیونکہ انہوں نے خنزیر کے کھانے کے جواز پر نص قائم کی ہے اور وہ خشکی میں اس کے مشابہ ہے جس کو نہیں کھایا جاتا۔ اور ان کے نزدیک مگر مچھ، فرش (سمندری جانور ہے) اور دلفین (یہ بھی سمندری جانور ہے) نہیں کھائے جائیں گے اور ہر وہ چیز جس کی کچلیاں (بڑے دانت) ہوں وہ نہیں کھایاجائے گا، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے ہر ذی ناب (کچلیاں) کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : ان انواع میں جو پانی سے باہر نہیں نکلتی ہیں وہ یقینا صید البحر (دریائی شکار) سے ہیں اس پر امام مالک نے مینڈک کے بارے میں ” المدونہ “ میں جو فرمایا اس کا جواب مل گیا، کیونکہ انہوں نے فرمایا : مینڈک دریائی شکار میں سے ہے۔ عطا بن ابی رباح سے اس کے خلاف مروی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ حیوان کی اکثر زندگی کا اعتبار کرتے ہیں ان سے ابن الماء کے متعلق پوچھا گیا کیا وہ خشکی کا شکار ہے یا دریائی شکار ہے ؟ انہوں نے کہا : جہاں وہ زیادہ رہتا ہے وہ اس جگہ کا شکار ہے اور جہاں وہ بچے دیتا ہے اس جگہ کا ہے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے، درست یہ ہے کہ ابن الماء خشکی کا شکار ہے وہ چرتا ہے اور دانے کھاتا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 243 ) ۔ ابن عربی نے کہا : وہ حیوان جو پانی اور خشکی دونوں جگہ رہتا ہے اس میں صحیح یہ ہے کہ اس کو نہ کھایا جائے، کیونکہ اس میں دلیل تحلیل اور دلیل تحریم متعارض ہیں پس احتیاطا تحریم کی دلیل غالب ہوتی ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 5۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وللسیارۃ اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ اس سے مراد مقیم اور مسافر ہیں جیسا کہ ابو عبیدہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے اس مچھلی کو کھایاجب کہ وہ مسافر تھے اور نبی مکرم ﷺ نے بھی کھایاجب کہ آپ مقیم تھے پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ مقیم کے لیے حلال ہے جس طرح کہ وہ مسافر کے لیے حلال ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ السیارۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سمندر پر سوار ہوتے ہیں جیسا کہ امام مالک اور نسائی کی حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے نبی مکرم ﷺ سے سوال کیا عرض کی : ہم سمندر پر سوار ہوتے ہیں اور ہمارے پاس پانی کم ہوتا ہے اگر ہم اس پانی کے ساتھ وضو کریں تو ہم پیاسے رہ جائیں کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں ؟ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے “ ابن عربی نے کہا : ہمارے علماء نے فرمایا : اگر نبی مکرم ﷺ اسے نعم (ہاں) فرمادیتے تو اس کے ساتھ صرف پیاس کے خوف کے وقت وضو کرنا جائز ہوتا، کیونکہ جواب، سوال پر مرتب ہوتا ہے اور اس پر یہ مشکل ہوتا لیکن نبی مکرم ﷺ نے قاعدہ تاسیس سے آغاز کیا اور شرع نے بیان سے آغاز فرمایا :” اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے “۔ میں کہتا ہوں : جواب ان پر مقصود ہوتا اور دوسروں کی طرف متعدی نہ ہوتا اگر شریعت کا یہ حکم ثابت نہ ہوتا کہ شریعت کا ایک شخص پر حکم، تمام لوگوں پر ہوتا ہے مگر تخصیص کے ساتھ جس پر نص وارد ہوجائے جیسے حضرت ابوہریرہ کو نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھا :” بکری کا بچہ اس کو تو قربانی کر اور تیرے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں “ (2) (صحیح بخاری، کتاب الاضحی، جلد 2، صفحہ 833) مسئلہ نمبر 6۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وحرم علیکم صید البحر مادمتم حرما، تحریم عیان کی صفت نہیں بلکہ یہ افعال کے متعلق ہوتی ہے اور حرم علیکم صید البحر کا معنی ہے شکار کا فعل تم پر حرام کیا گیا ہے اور وہ شکار کرنے سے منع کرنا ہے یا الصید بمعنی المصید ہوگا اس بنا پر کہ مفعول کا فعل کے ساتھ نام رکھا گیا جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔ یہ اظہر ہے، کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ محرم کے لیے اس شکار کا قبول کرنا بھی جائز نہیں جو اس کو ہبہ کیا گیا ہو اور اس کا خریدنا اور اس کا شکار کرنا بھی جائز نہیں اور کسی اعتبار سے اس کی ملکیت کی تجدید جائز نہیں اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) حرم علیکم صید البحر مادمتم حرماعام ہے اور نیز اس کی دلیل حضرت صعب بن جثامہ کی حدیث ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ علماء کا اختلاف ہے اس بارے میں جو محرم شکار میں سے کھاتا ہے۔ امام مالک، امام شافعی ان کے اصحاب، احمد اور اسحاق سے مروی ہے اور حضرت عثمان بن عفان سے صحیح یہ مروی ہے کہ محرم کے لیے اس شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں جب کہ وہ اس کے لیے شکار نہ کیا گیا ہو۔ کیونکہ ترمذی، نسائی اور دار قطنی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” خشکی کا شکار تمہارے لیے حلال ہے جب کہ وہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو یا تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو “ (1) (جامع ترمذی، کتاب الحج، جلد 1 صفحہ 104، سنن ابی دائود، کتاب المناسک، باب لحم الصید للمحرم، حدیث نمبر 1577، ضیاء القرآن پہلی کیشنز ) ۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ باب میں احسن حدیث ہے۔ نسائی نے کہا : عمرو بن ابی عمرو، اس حدیث میں قوی نہیں اگرچہ امام مالک نے ان سے روایت کی ہے اگر محرم اس شکار سے کھائے جو اس کے لیے شکار کیا گیا ہے تو وہ دیت دے۔ حسن بن صالح اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے امام مالک کا قول اس شکار کے بارے میں مختلف ہے جو بعینہ محرم کے لیے شکار کیا گیا ہے۔ امام مالک کے نزدیک مشہور مذہب یہ ہے کہ محرم اس شکار سے نہ کھائے جو معین محرم یا غیر معین محرم کے لیے شکار کیا گیا ہو اور حضرت عثمان نے جو اپنے ساتھیوں کا کہا : اس کو نہیں لیا، جب شکار کا گوشت پیش کیا گیا جب کہ وہ محرم تھے (آپ نے فرمایا تھا) کھائو تم میری مثل نہیں، کیونکہ میری وجہ سے یہ شکار کیا گیا ہے۔ اہل مدینہ کے ایک گروہ نے یہی کہا ہے، امام مالک سے یہ بھی مروی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب نے کہا : محرم کے لیے شکار کا کھانا ہر حال میں کھانا جائز ہے جب کہ اسے غیر محرم نے شکار کیا ہو، خواہ وہ اس کے لیے شکار کیا گیا ہو یا شکار نہ کیا گیا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ظاہر ارشاد ہے : لاتقتلو الصید وانتم حرم تم شکار نہ کرو جب کہ تم محرم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا شکار حرام کیا ہے اور اسے قتل کرنا محرموں پر حرام کیا ہے نہ کہ وہ حرام کیا ہے جو کسی غیر نے شکار کیا ہے۔ اور بہزی کی حدیث سے حجت پکڑی ہے بہزی کا نام زید بن کعب ہے۔ انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے اس وحشی گدھے کے بارے میں روایت کیا ہے جو زخمی تھا آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردو۔ یہ امام مالک وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ نیز ابو قتادہ کی حدیث سے جو نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے اس سے حجت پکڑی ہے جس میں ہے کہ جس میں ہے کہ انما ھی طعمۃ اطعمکموھا اللہ (2) (صحیح مسلم، کتاب الحج، جلد 1، صفحہ 380) یہ وہ کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا ہے۔ یہ حضرت عمر بن خطاب کی ایک روایت میں حضرت عثمان بن عفان کا قول ہے حضرت ابوہریرہ ، حضرت زبیر بن العوام، مجاہد، عطا اور سعید بن جبیر کا قول ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ محرم کے لیے کسی حال میں شکار کا کھاناجائز نہیں ہے خواہ وہ اس کے لیے شکار کیا گیا ہو یا شکار نہ کیا گیا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول عام ہے : (آیت) حرم علیکم صید البحر مادمتم حرما۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے فرمایا : یہ مبہم ہے، طائو وس، جابر بن زید، ابو الشعشاء نے بھی یہی فرمایا ہے، ثوری سے بھی یہی مروی ہے اور اسحاق نے بھی یہی کہا ہے اور انہوں نے حضرت صعب بن جثامہ لیثی کی حدیث سے حجت پکڑی ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو وحشی گدھا ہدیہ پیش کیا جب کہ ابواء میں تھے یا ودان میں تھے وہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس کردیا۔ فرمایا : جب رسول اللہ ﷺ نے میرے چہرے پر پریشانی دیکھی تو فرمایا :” ہم تجھے واپس نہ کرتے مگر ہم احرام باندھے ہوئے ہیں “ (1) (صحیح مسلم، کتاب الحج، جلد 1، صفحہ 379) ۔ اس حدیث کو ائمہ نے ذکر کیا ہے اور یہ لفظ امام مالک کا ہے۔ ابو عمر نے کہا : سعید بن جبیر، مقسم، عطا اور طائو وس کی حدیث سے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت صعب بن جثامہ نے رسول اللہ ﷺ کو وحشی گدھے کا گوشت پیش کیا۔ سعید بن جبیر نے اپنی حدیث میں کہا : وحشی گدھے کا پچھلاحصہ پیش کیا آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا اس کا خون گر رہا تھا گویا وہ اس وقت میں شکار کیا گیا تھا۔ مقسم نے اپنی حدیث میں کہا : وحشی گدھے کی ٹانگ پیش کی۔ عطا نے اپنی حدیث میں کہا : شکار کا بازو پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا : ہم محرم ہیں۔ طائو وس نے اپنی حدیث میں کہا : عضدامن لحم صید شکار کے گوشت میں سے بازو پیش کیا۔ اسماعیل نے علی بن مدینی سے انہوں نے یحییٰ بن سعید سے انہوں نے ابن جریح سے انہوں نے حسن بن مسلم سے انہوں نے طائو وس سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے ” مگر ان میں سے بعض “۔ حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے زید بن ارقم سے روایت کیا ہے اسماعیل نے کہا : میں نے سلیمان بن حرب کو اس حدیث کی یہ تاویل کرتے سنا کہ وہ نبی مکرم ﷺ کے لیے شکار کیا گیا تھا حدیث میں ان کا یہ قول ہے کہ آپ ﷺ نے اسے وہ واپس کردیا جب کہ اس کے خون کے قطرے گر رہے تھے گویا وہ اس وقت شکار کیا گیا تھا۔ اسماعیل نے کہا : سلیمان نے اس حدیث کی تاویل کی، کیونکہ وہ تاویل کا محتاج تھا۔ رہی امام مالک کی روایت تو وہ تاویل کی محتاج نہیں، کیونکہ محرم کے لیے شکار کو زندہ پکڑنا جائز نہیں اور نہ اس کاذبح کرنا جائز ہے۔ اسماعیل نے کہا : سلیمان بن حرب کی تاویل پر تمام احادیث مرفوعہ اس میں غیر مختلف ہوں گی انشاء اللہ تعالی۔ مسئلہ نمبر 8۔ جب کوئی شخص احرام باندھے اور اس کے ہاتھ میں یا اس کے گھر میں اس کے گھر والوں کے پاس شکارہو تو امام مالک نے کہا : اگر وہ اس کے ہاتھ میں ہو تو اس پر اس کا چھوڑنا واجب ہے اور اگر اس کے گھر والوں کے پاس ہو تو اس کا اس پر چھوڑنا واجب نہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل کا قول ہے اور ایک قول میں امام شافعی نے کہا : خواہ وہ اس کے ہاتھ میں ہو یا گھر میں ہو اس پر اس کا چھوڑنا واجب نہیں۔ یہی ابو ثور کا قول ہے۔ مجاہد، عبداللہ بن حرث سے اس کی مثل مروی ہے۔ اور امام مالک سے مروی ہے اور ابن ابی لیلی، ثوری، امام شافعی نے دوسرے قول میں کہا : اس پر اس کا چھوڑنا واجب ہے خواہ وہ اس کے گھر میں ہو یا اس کے ہاتھ میں ہو اگر اس نے اسے نہ چھوڑا تو ضامن ہوگا اس کے چھوڑنے والے قول کی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) حرم علیکم صید البرمادمتم حرمایہ ملک اور تصرف میں عام ہے اور اس کو پکڑے رکھنے والے قول کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز احرام کی ابتدا میں مانع نہیں وہ اس کی ہمیشہ ملک میں رکھنے کے مناسب نہیں، اس کی اصل نکاح ہے۔ مسئلہ نمبر 9۔ اگر غیر محرم، مقام حل میں شکار کرے پھر اسے حرم میں لے آئے تو اس میں اس کے لیے ہر قسم کا تصرف جائز ہے۔ (یعنی) ذبح کرنا اس کا گوشت کھانا۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : جائز نہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ یہی معنی شکار میں پایا جاتا ہے پس حرم میں حلالی کے لیے جائز ہوگا جیسے روکنا اور شرا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 689) ۔ مسئلہ نمبر 10۔ جب محرم، حلالی کے شکار پر راہنمائی کرے پھر حلالی اسے قتل کردے تو اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور ابو ثور نے کہا : اس پر کوئی شی نہیں ہے، یہی ابن الماجثون کا قول ہے۔ کو فیوں، احمد، اسحاق اور صحابہ وتابعین کی ایک جماعت نے کہا : اس پر جزا ہے کیونکہ محرم نے اپنے احرام کے ساتھ ترک تعرض کا التزام کیا تھا پس وہ دلالت کی وجہ سے ضامن ہوگا جیسے وہ شخص جس کے پاس ودیعت رکھی گئی ہو جب وہ چور کی چوری کرنے پر راہنمائی کرے۔ مسئلہ نمبر 11۔ اس محرم کے بارے میں اختلاف ہے جب وہ کسی دوسرے محرم کی شکار کی طرف راہنمائی کرے۔ کو فیوں اور اشہب مالکی کا خیال ہے کہ ان میں سے ہر ایک پر جزا ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور ابو ثور نے کہا : جزا قاتل محرم پر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ومن قتلہ منکم متعمدا فجزاء کے وجوب کا تعلق قتل کے ساتھ ہے یہ کسی دوسرے کے انتفاء کی دلیل ہے، کیونکہ وہ دلالت کرنے والا ہے، پس اس کی دلالت کی وجہ سے چٹی لازم نہیں ہوگی جیسے کوئی غیر محرم حرم میں، حرم کے شکار پر دلالت کردے۔ کو فیوں اور اشہب نے نبی مکرم ﷺ کے قول سے استدلال کیا ہے جو ابو قتادہ کی حدیث میں ہے ھل اشرتم واعنتم (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 690) کیا تم نے اشارہ کیا یا مدد کی ہے ؟ یہ جزا کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ پہلا قول اصح ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 12۔ جب کوئی درخت مقام حل میں اگا ہو اہو اور اس کی شاخیں حرم میں ہوں پھر شکار اس حصہ سے پکڑا تو اس میں جزا ہے، کیونکہ اس نے وہ حرم سے پکڑا ہے۔ اگر اس کی اصل حرم میں ہو اور اس کی فرع حل میں ہو اس سے پکڑے گئے شکار کے بارے میں ہمارے علماء کا اختلاف ہے۔ جزا اصل کے اعتبار سے ہے اور فرع کی طرف دیکھنے کے اعتبار سے اس کی نفی ہے۔ مسئلہ نمبر 13۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتقوا اللہ الذی الیہ تحشرون یہ اس تحلیل وتحریم کے بعد تنبیہ اور تشبیہ ہے پھر تحذیر میں مبالغہ کے لیے قیامت اور حشر کے امر کو ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم
Top