Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 96
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ١ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے صَيْدُ الْبَحْرِ : دریا کا شکار وَطَعَامُهٗ : اور اس کا کھانا مَتَاعًا : فائدہ لَّكُمْ : تمہارے لیے وَلِلسَّيَّارَةِ : اور مسافروں کے لیے وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر صَيْدُ الْبَرِّ : جنگل کا شکار مَا : جب تک دُمْتُمْ : تم ہو حُرُمًا : حالت احرام میں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جو اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم جمع کیے جاؤگے
تمہارے لیے سمندر اور دریا کا شکار اور کھانے کی چیزیں حلال ہیں تاکہ ان سے خود تمہیں بھی فائدہ پہنچے اور اہل قافلہ بھی فائدہ اٹھائیں لیکن خشکی کا شکار جب تک احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے ، پس اللہ سے ڈرو کہ اس کی طرف تم سب جمع کر کے لے جائے جاؤ گے
جو شکار منع کیا گیا وہ بری تھا اور احرام کی حالت میں تم بحری شکار کرسکتے ہو : 228: بری شکار محرم کے لئے حرام ہے شکار کرنا بھی اور اس کا کھانا بھی جب کہ خود اس نے کیا ہو یہ شکار کی طرف اشارہ کنایہ کیا ہو اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ شکار کھانے کی غرض سے کیا جائے یا شغل کی وجہ سے جس طرح حرام چیزوں کا شکار دونوں کی ممانعت ہے۔ ہاں شکار کرنے اور تنگ کرنے والی چیزوں کو قتل کرنے میں جو فرق ہے اس کو ہر ایک انسان اچھی طرح سمجھتا ہے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی ہے کہ بعض چیزوں کو مار لینے کی آپ (علیہ السلام) نے اجازت دی ہے جن کا ذکر احادیث میں موجود ہے چناچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ محرم ان چیزوں کو قتل کرسکتا ہے اور اس پر کوئی گناہ یا کفارہ نہیں جیسے بچھو ، چوہا ، کوا ، چیل اور کاٹنے والا کتا اور مفسرین اور شارحین نے اس کی وضاحت کی ہے کہ ” کلب “ سے مراد درندہ ہے جو چیرنے پھاڑنے والا ہوتا ہے اور ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ بچھو ، چوہا ، کوا ، چیل ، کاٹنے والا کتا ، بھیڑیا اور چیتا یعنی سات جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے (ابن خزیمہ اور ابن المنذر) اور ایک روایت میں سانپ اور بھیڑیئے کا ذکر ہے اور بعض مفسرین نے ماکول اللحم جانوروں کے شکار سے منع کیا ہے اور خبیث اللحم جانوروں کو شکار قرار ہی نہیں دیا۔ زیر نظر آیت نے اس بات کی وضاحت کردی کہ محرم کو جس شکار کی ممانعت کی گئی ہے وہ صرف صحرائی یا بری جانوروں کا شکار ہے اور بحری جانوروں کے شکار کی ممانعت نہیں۔ صید البحر سے مراد وہ آبی جانور ہیں جو پانی کے علاوہ زندہ نہیں رہ سکتے یعنی دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔ پھر طعام البحر اور صید البحر کی بحث بھی اٹھائی گئی اور دونوں کا فرق بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا صید البحر وہ ہے جس کو سمندر سے شکار کیا جائے اور طعام البحر وہ ہے جس کو سمندر خود باہر پھینک دے اور ابن عباس ؓ اور ابوہریرہ ؓ کا بھی یہی خیال ہے اور بعض آئمہ تفسیر نے بیان کیا کہ صید البحرتازہ شکار کو کہا جاتا ہے اور طعام البحر اس کو کہتے ہیں جس کو نمک لگ چکا ہو ۔ فرمایا اس کی تم کو اس لئے اجازت ہے تاکہ تم اور دوسرے سارے مسافر اس سے مستفید ہو سکو اور ظاہر ہے کہ اہل اقامت تازہ بتازہ پکڑ کر تیار کرسکتے اور کھا سکتے ہیں اور مسافر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے سفر کو جاری رکھنے کے لئے اپنے توشہ دان میں سنبھال سکتے ہیں تاکہ سفر جاری رکھیں اور عند الضرورت اس میں سے کھالیا کریں۔ شکار سے غذا بھی حاصل ہوتی ہے اور شکار کرنا طبیعت کو یا بعض طبیعتوں کو بہت مرغوب ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ عربوں کو خشکی کے شکار کا بہت شوق تھا اور اس کے لئے وہ درو دراز تک چلے جاتے تھے لیکن اس کے برعکس بحری شکار سے ان کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی بنی اسرائیل کو اس کے بالکل برعکس بحری شکار سے بہت دلچسپی تھی لیکن صحرائی شکار سے ان کو خاص طرح کا لگاؤ نہیں تھا۔ آپ غور کریں کہ نفس کے لئے جو مرغوب چیز تھی اس پر پابندی عائد کی گئی لیکن جو چیز اتنی مرغوب نہ تھی اس کو دونوں گروپوں کی ضرورت کے لئے جائز رکھا گیا تاکہ ضرورت بھی پوری ہو اور نفس کی رغبت بھی کم ہو۔ اس ترتیب بیان سے کتنی چیزیں ہیں ، جن کو استنباط کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں صحیح استنباط کا رواج بہت کم ہے۔ فرمایا ” تمہارے لئے سمندر کا شکار اور کھانے کی چیزیں حلال ہیں تاکہ اس سے خود تم کو بھی فائدہ پہنے اور اہل قافلہ بھی فائدہ حاصل کریں۔ “ کیونکہ اس شکار سے تم کو اتنی دلچسپی نہیں کہ تم شکار کے علاوہ لہو ولعب اور کھیل میں بھی مبتلا ہوجاؤ ۔ پھر تاکیداً فرما دیا کہ اس ڈھیل سے کہیں غلط فائدہ نہ اٹھا جاؤ حقیقت حال کو یاد رکھو کہ خشکی کے شکار سے تم کو روکا گیا تھا کہ احرام کی حالت میں یہ شکار مت کرو اور اس کی حرمت اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے ” پس اللہ سے ڈور کہ اس کی طرف تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا۔ “ اور وہاں تمہارا ہر قسم کا نتیجہ تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا جس سے تم انکار نہیں کرسکو گے۔
Top