Al-Quran-al-Kareem - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے، بیشک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے، یقینا اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔
1۔ وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ : مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں :”اس مقام پر رزق کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ انسان دوران عدت مطلقہ عورت پر خرچ کرنے اور اس کو بھلے طریقے سے رخصت کرنے میں بخل سے کام نہ لے ، بلکہ اس سے جتنا بہتر سلوک کرسکتا ہے کرے۔ نیز بعض دفعہ صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے مگر عورت صاحب جائیداد ہوتی ہے یا اچھا کما سکتی ہے تو خاوند اس کی چھوڑنے ہی پر آمادہ نہیں ہوتا ، مگر اس سے اچھا سلوک کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوا ہے ، لہٰذا وہ عورت کو اپنے ہاں لٹکاتے رکھتا ہے۔ ایسی سب صورتوں میں اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی کام کرنا چاہیے جو اللہ کا حکم ہو ، تنگ دستی سے نہیں ڈرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس سے ڈر کر اسی کے حکم کے مطابق چلے گا تو اس کی تنگدستی کو دورکرنا اللہ کے ذمے ہے ، وہ اسی کو ایسی جگہ سے رزق پہنچانے کا انتظام فرما دے گا جو پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی“۔ (تیسیر القرآن) 2۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہ ِ فَھُوَ حَسْبُہٗ۔۔۔۔۔: یعنی جو شخص غلام کام سے بچتے ہوئے حق پر قائم رہے اور اپنا معاملہ اور نفع ہو نقصان اللہ کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجائے گا ، کیونکہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی اسباب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، جب کہ انسان کی نطر صرف چند ظاہری اسباب تک محدود ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے اپنے ڈرنے والے کے لیے پریشانیوں سے نجات کی راہ پیدا کرسکتا ہے اور وہ پریشان اور تنگدستی دور کرنے کے لیے نئے اسباب بھی پیدا فرما سکتا ہے۔ اور اسباب کے بغیر بھی جو چاہے کرسکتا ہے ، کیونکہ اس کی قدرت اسباب کی پابند نہیں بلکہ اسباب اس کی مشیت کے تابع ہیں۔ وہ ظاہری اسباب سے بھی ایسے نتائج ظاہر کرسکتا ہے جو اسانی عقل کے برعکس ہوں ، وہ نہ چاہے تو محرب دوا بھی شفاء کے بجائے بیماری کا باعث بن جاتی ہے اور چاہے تو مضر صحت چیز شفاء کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ 3۔ قَدْ جَعَلَ اللہ ُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا : یعنی اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے باوجود نکلنے کی راہ نہیں ملی اور نہ ہی اللہ پر توکل کے باوجود اس کی پریشانی دور ہوئی ہے تو اسے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور کشادگی کا منتظر رہنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اسے ہر حال میں پورا کرنے والا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور وقت اپنے کامل علم کے ساتھ شروع سے مقرر فرمایا ہے ، اس مقرر وقت پر اس کا توکل کرنے والوں کے لیے کافی ہوجانے کا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ درحقیقت یہ ہے کہ تقدیر پر ایمان ہی انسان کو مشکلات میں صبر اور حوصلہ دلاتا ہے، فرمایا :(قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہ ُ لَنَاج ھُوَ مَوْلٰـنَاج وَعَلَی اللہ ِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ) (التوبۃ : 51)”کہہ دے ہمیں ہرگز نہیں پہنچے گا مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسہ کریں“۔ مزید دیکھئے سورة ٔ قمر (49) ، فرقان (2) ، رعد (8) اور سورة ٔ حجر (21)۔
Top