Tafseer-e-Mazhari - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو۔ اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا۔ خدا اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کردیتا ہے۔ خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے
لا یحتسب . اور اس کو اس جگہ سے رزق بھی پہنچا دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ “ ومن یتوکل ... شیء قدرا . ” اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ اس (کی تسہیل مہمات) کے لیے کافی ہے اور اللہ اپنا کام (جس طرح چاہے) پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ (اپنے علم میں) مقرر کر رکھا ہے۔ “ فَھُوَ حَسْبُہٗ : یعنی اس کے تمام فکر آگیں امور کے لیے اللہ کافی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے اگر تم لوگ اللہ پر ایسا بھروسہ کرلو جیسا بھروسہ کرنے کا حق ہے (یعنی کامل بھروسہ کرلو) تو اللہ تم کو اس طرح رزق عطا فرمائے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر واپس آتے ہی۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے ستّر ہزار آدمی ‘ بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو منتر نہیں کراتے ‘ شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (متفق علیہ) اور ایک روایت میں اتنا زائد ہے اور داغ نہیں لگواتے۔ اِنَّ اللہ بَالِغُ اَمْرِہٖ : یعنی اللہ اپنے ارادہ کو ضرور پورا کرتا ہے کوئی اسکو تکمیل ارادہ سے نہیں روک سکتا ‘ اسکے فیصلے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ مسروق نے کہا خدا کی مشیت ضرور پوری ہو کر رہتی ہے ‘ کوئی اس کی مشیت پر بھروسہ رکھے یا نہ رکھے البتہ جو اس پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے گناہ معاف فرماتا ہے اور اجر عظیم عطا کرتا ہے۔ قَدْ جَعَلَ اللہ لِکُلِّ شَیْ ءٍ قَدْرًا : یعنی اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے۔ ہر چیز تقدیر خداوندی کے اندر ہے۔ طلاق کا ایک وقت (یعنی طہر) اور عدت کی ایک میعاد (تین حیض اور چار ماہ دس روز) اسی کے اندازہ کے موافق ہے یا ہر چیز سے مراد ہے سختی ‘ نرمی ‘ دکھ ‘ سکھ۔ یعنی اللہ نے ہر دکھ سکھ کی ایک میعاد اور حد مقرر کردی ہے ‘ مقررہ حد پر پہنچ کر ہر چیز ختم ہوجاتی ہے اس میں تبدل و تغیر ممکن نہیں ‘ نہ بےصبر ہونے اور گھبرانے سے کوئی فائدہ ہے۔ اس صورت میں یہ وجوب توکل کا بیان ہوگا اور یہ تفسیر قول مسروق کے موافق ہوگی۔ ابن جریر ‘ اسحاق بن راہویہ اور حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت ابی بن کعب کی روایت سے بیان کیا کہ جب سورة بقرہ میں عورتوں کی عدت کا حکم بیان کردیا گیا تو صحابہ ؓ نے کہا : کچھ عورتوں کی عدت تو بیان ہی نہیں کی گئی۔ نابالغ اور بوڑھی عورت کی مقدار عدت کا کچھ حکم نہیں دیا گیا ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :
Top