Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 45
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا
وَاضْرِبْ : اور بیان کردیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلَ : مثال الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی كَمَآءٍ : جیسے پانی اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَاخْتَلَطَ : پس مل جل گیا بِهٖ : اس سے ذریعہ نَبَاتُ الْاَرْضِ : زمین کی نباتات (سبزہ) فَاَصْبَحَ : وہ پھر ہوگیا هَشِيْمًا : چورا چورا تَذْرُوْهُ : اڑاتی ہے اس کو الرِّيٰحُ : ہوا (جمع) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر مُّقْتَدِرًا : بڑی قدرت رکھنے والا
(اے نبی ﷺ دنیا کی زندگی کی ایک مثال بیان کردیجیے۔ (مثال یہ ہے کہ) جیسے ہم نے بلندی سے پانی برسایا پھر زمین کی پیداوار خوب گھنی ہوگئی۔ پھر وہی (نباتات) چورا چورا ہو کر رہ گئی جس کو ہوا اڑائے پھرتی ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 49 اختلط مل گیا۔ نبات الارض زمین کا سبزہ۔ اصبح ہوگیا۔ ہشیم چورہ چورہ۔ تذروا وہ اڑاتی ہے۔ الریاح (ریح) ہوائیں۔ مقتدر قدرت رکھنے والا۔ البنون (ابن) بیٹے۔ البقیت باقی رہنے والی۔ امل توقع، امید۔ نسیر ہم چلائیں گے۔ بار زۃ کھلی ہوئی۔ لم نغادر ہم نے نہیں چھوڑا۔ عرضوا پیش کیا گیا۔ صف قطار، صف۔ اول مرۃ پہلی مرتبہ۔ زعمتم تم نے گھمنڈ کیا، گمان کیا۔ وضع رکھ دیا گیا۔ مشفقین ڈرنے والے۔ احصی شمار کرلیا گیا۔ لایظلم وہ ظلم نہیں کرتا۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 49 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں چھوٹی چھوٹی مثالوں سے بڑی بڑی حقیقتوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ دنیا کی بےثباتی اور کمزوریوں کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا اور اس کی چیزیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں تاکہ ہر شخص ان کو استعمال کر کے اپنی زندگی کا سامان کرسکے ۔ یہ دنیا نہ تو دل لگانے کی چیز ہے نہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہمیشہ رہنے والی چیز آخرت اور انسان کے نیک اعمال ہیں۔ فرمایا کہ جب زمین پر بارش برستی ہے تو مردہ زندگی میں ایک نئیزندگی اور سرسبزی و شادابی نظر آنے لگتی ہے۔ درخت، سبزہ، پھول، بوٹے اور لہلہاتے کھیت رونق دینے لگتے ہیں۔ لیکن پھر وہ موسم آتا ہے جس میں ہر چیز پر خزاں چھانے لگتی ہے۔ وہی درخت اور پنے جو اپنی سرسبزی و شادابی سے دلوں کو گرما رہے تھے بےرونق ہوجاتے ہیں۔ درختوں کے پتے رنگ بدلتے بدلتے جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ پتے ادھر ادھر بکھر کر ہواؤں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک بچہ پیدا ہوتا ہے وہ آہستہ آہستہ بڑھ کر نو جوانی، جوانی میں قدم رکھتا ہے ۔ اس وقت اس میں ایک خاص ہمت، ولولہ اور شوق ہوتا ہے وہ خوب محنت کرتا ہے اور پھر ادھیڑ عمری سے گذر کر بوڑھا ہوجاتا ہے اور وہ خزاں میں بکھرے ہوئے پتوں کی طرح ادھر ادھر ڈولتا پھرتا ہے اور پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس دنیا پر نجانے کتنی مرتبہ بہاروں کے موسم آئے۔ یہ دنیا بھی ایک وقت تمام بہاروں سے گذر کر فنا ہوجائے گی اور صرف ایک اللہ کی حکمرانی رہ جائے گی۔ انسان دنیا میں اپنے چاروں طرف بہت سی چیزیں جمع کرتا ہے مال و دولت، گھر بار، کاروبار، اونچے اونچے مکان، سواریاں اور اولاد لیکن جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس میں سے کوئی بھی چیز اس کے ساتھ نہیں جاتی۔ یہ دنیا اور اس کی رونقیں یہیں رہ جاتی ہیں البتہ انسان کے وہ بہترین اعمال اور بلند کردار اس کے ساتھ جاتا ہے جو اس کی نجات کا ذریعہ ہے۔ انسان کے تمام اعمال کا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ اگر بہتر اعمال کئے ہیں تو اس کی آخرت کی نجات کا ذریعہ بنج ائیں گے۔ برے اعمال ہوں گے تو وہ اس کے گلے کی مصیبت بن جائیں گے۔ جب آدمی دنیا اور اس کی رونقیں حاصل کرتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گی لیکن موت کی نیند کے ساتھ ہی یہ چیزیں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ اس کے برخلاف اس کے نیک اعمال اس کی قبر سے لے کر میدان حشر تک اس کا ساتھ دیں گے اور اس کو آخرت کی زندگی اور اس کی راحتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عطا کی جائیں گے اسی لئے آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کے لئے محنت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ درحقیقت اس دنیا سے تو ہر شخص کو ایک خاص مدت کے بعد جانا ہی ہے۔ خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو اس دنیا کی مختصر زندگی میں زیادہ سے زیادہ حسن عمل اور حسن کردار کی فکر میں لگے رہتے ہیں وہی ان کی دنیا اور آخرت میں عزت و سربلندی کا ذریعہ ہے۔ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو تو اس کا کردار دوسروں کے لئے بہترین مثال بن جائے۔ ہر شخص اس کو یاد کرنے والا، اس کے کے لئے کلمہ خیر کہنے والا، دعائیں کرنے والا ہو اور اس کے کردار کو ایک مثال بنا کر اس کی زندگی دوسروں کے لئے کوئی مثال ہو اور نہ اس کے لئے کوئی ایصال ثواب کرنے والا ہو۔ فرمایا کہ آخرت کی خوش حالی اور دنیا کی نیک نامی ان لوگوں کو ملتی ہے جو حسن عمل کا پیکر ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے اس زندگی میں کسی کے ساتھ کوئی اچھا معاملہ کیا جو اس کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے اگر کسی کو عالم حافظ قاری بنا دیا، تعمیر مسجد و مدرسہ میں حصہ لیا تو یہ اس کے لئے انتہائی اعلیٰ صدقہ جاریہ ہے۔ انسان کا ایک بہت بڑا صدقہ جاریہ اس کی اپنی اولاد ہے جس کی صحیح تعلیم و تربیت سے وہ ان کو صحیح راستے پر ڈال کر جانے والا ہو تو اولاد کا ہر نیک عمل اس کے والدین کے لئے ثواب جاریہ ہے۔ اس کے والدین کے لئے ثواب جاریہ ہے۔ اس موقع پر میں یہ عرض کروں گا کہ صرف وہ اپنے بچوں کی ہی فکر نہ کرے بلکہ اپنی قوم کے غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر بھی کرے تاکہ اس کے اجر وثواب میں اضافہ ہوتا چلا جائے اور یہ بھی اس کے لئے ثواب جاریہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے کاموں کا بہترین اجر وثواب عطا فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ ہر شخص کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ایک وقت اللہ اپنی قدرت و طاقت سے اس زمین کو ایک صاف اور چٹیل میدان بنا دے گا پھر قیامت قائم کی جائے گی اور انسان نے دنیا میں جو اعمال کئے ہیں ان کا حساب لیا جائے گا ان کے نامہ اعمال ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے جس میں ہر بات درج ہوگی وہ بات چھوٹی ہو یا بڑی۔ وہ وقت بھی عجیب ہوگا۔ جب ہر شخص اپنے نامہ اعمال پڑھ کر یہ محسوس کرے گا کہ اس میں زندگی کے ہر معاملے کو نوٹ کرلیا گیا ہے اور کسی بات کو چھوڑا نہیں گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس دنیا میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا اسی طرح آخرت میں بھی ہر شخص کو انصاف ملے گا اور اس پر ذرہ برابر ظلم و زیادتی نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فکر آخرت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Top