Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 45
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا
وَاضْرِبْ : اور بیان کردیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلَ : مثال الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی كَمَآءٍ : جیسے پانی اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَاخْتَلَطَ : پس مل جل گیا بِهٖ : اس سے ذریعہ نَبَاتُ الْاَرْضِ : زمین کی نباتات (سبزہ) فَاَصْبَحَ : وہ پھر ہوگیا هَشِيْمًا : چورا چورا تَذْرُوْهُ : اڑاتی ہے اس کو الرِّيٰحُ : ہوا (جمع) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر مُّقْتَدِرًا : بڑی قدرت رکھنے والا
اور (اے نبی ! ) ان سے زندگی دنیا کی مثال بیان کرو کہ وہ ایسی ہے کہ جیسا کہ بارش کا پانی جس کو ہم نے اوپر سے برسایا پھر اس سے زمین کا سبزہ گہن گہنا کر اگا پھر وہ چورا چورا ہو کر رہ گیا کہ اس کو ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
ترکیب : مثل الحیات مفعول ہے اضرب کا کماء موصوف انزلناہ الخ جملہ صفت مجموعہ خبر ہے مبتدا محذوف کی اے ھی بل للخروج من کلام الیٰ آخر۔ تفسیر : یہ دوسری تمثیل ہے دنیا کی بےثبانی کے لیے صرف بارش سے دنیا کی زندگی کو تشبیہ نہیں دی بلکہ اس کی تمام کیفیت سے کہ جس طرح بارش سے زمین کے نباتات ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے نکلتے ہیں جن کو دیکھ کر انسان خوش ہوتے ہیں ان کی تھوڑی سی عمر طبعی ہے چند روز کے بعد خشک ہوجاتے ہیں پھر ان کا چورا چورا ہو کر ہوا میں اڑتا پھرتا ہے اسی طرح انسان و دیگر حیوانات کا حال ہے کہ لڑکے ہیں پھر جوان رعنا ہیں ٹھوکریں مارتے چلتے ہیں ‘ پھر بڈھے ہوئے مرگئے ‘ چند روز کے بعد وہ سرِ پر غرور اور اس کا وہ جسم پرنور ذرہ ذرہ ہو کر خاک کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے۔ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ بناتا بھی ہے ‘ مٹاتا بھی ہے پھر حشر کو بھی اٹھائے گا۔ اب اس کے بعد اس کے مال و اولاد کی کیفیت بیان فرماتا ہے جو اس کے غرور کا سرمایہ ہے کہ یہ چیزیں صرف حیات دنیا کی آرائش 1 ؎ ہیں۔ ان کا قیام اسی قدر ہے کہ جس قدر باغ میں پھول کی بہار برخلاف اس کے جو فقرائِ باخدا کا سرمایہ ہے وہ کیا۔ الباقیات الصالحات سو وہ اللہ کے نزدیک ثواب اور توقع کے لیے بہتر ہے یہی چیزیں اس کے ساتھ جاتی ہیں جو اس عالم باقی میں اس کی فرحت دائمی کا سامان ہوجاتی ہیں۔ باقیات الصالحات سے مراد نیکیاں ہیں خواہ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا ذکر ہو یا معرفت و استغراق ہو یا کوئی اور نیکی ہو صدقہ و خیرات دین کی خدمت وغیرہ۔ اب ان باقیات کا اثر کب نمودار ہوگا۔ یوم نسیر الجبال کہ جس روز ہم پہاڑوں کو جن کی بقا وحیات انسانوں کی نظروں میں مستحکم ہے، روئی کے گالوں کی طرح اڑائیں گے یعنی اس عالم عنصری کو فنا کر کے عالم باقی کو کہ جس کو حشر سے تعبیر کیا جاتا ہے ظاہر کریں گے باقیات الصالحات وہاں کی زینت ہوگی۔ وتری الارض بارزۃ اور زمین میدان دکھائی دے گی اس کے سب نشان مٹ جائیں گے۔ پھر اس روز اگلے پچھلے سب جمع کئے جائیں گے، صف بستہ خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ نامہ اعمال دیے جائیں گے اس میں جو کچھ دنیا میں کیا تھا چھوٹا یا بڑا کام سب لکھا ہوا پائیں گے، گنہگار اس کو دیکھ کر ڈریں گے، پچھتائیں گے مگر یہ سب کچھ انہیں کا بویا ہوا ہوگا جس کو کاٹیں گے خدا کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
Top