Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 45
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا
وَاضْرِبْ : اور بیان کردیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلَ : مثال الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی كَمَآءٍ : جیسے پانی اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اس کو اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَاخْتَلَطَ : پس مل جل گیا بِهٖ : اس سے ذریعہ نَبَاتُ الْاَرْضِ : زمین کی نباتات (سبزہ) فَاَصْبَحَ : وہ پھر ہوگیا هَشِيْمًا : چورا چورا تَذْرُوْهُ : اڑاتی ہے اس کو الرِّيٰحُ : ہوا (جمع) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر مُّقْتَدِرًا : بڑی قدرت رکھنے والا
اور بیان کریں انکے سامنے مثال دنیا کی زندگی کی جیسا کہ ہم نے پانی اتارا آسمان کی طرف سے پس مل گیا اس کے ساتھ زمین کا سبزہ پھر ہوگیا وہ خشک چورا اڑاتی ہیں اس کو ہوائیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک دنیادار مشرک اور ایک ایماندار غریب آدمی کی مثال بیان فرمائی ، ان کی آپس میں گفتگو کا تذکرہ ہوا مشرک بڑا مغرور تھا اور ایماندار آدمی کو قلت مال اور قلت اولاد کا طعنہ دیتا تھا ، ایماندار آدمی نے اس مشرک سے کہا کہ تو اس پروردگار کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے پہلے مٹی سے بنایا اور پھر قطرہ آب سے تخلیق کی ، تجھے انسان بنایا اچھی شکل و صورت عطا فرمائی تو جو چاہئے عقیدہ اختیار کر مگر میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تمہارا فرض یہ تھا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت تمہاری زبان پر یہ کلمات ہوتے ” ماشآء اللہ لا قوۃ الا باللہ “۔ یعنی جو اللہ چاہے ، نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے ، کہنے لگا تیرا فرض یہ تھا کہ تو خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان لاتا اور تمام قوتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہی کو جانتا ، اس کی بجائے تو نے سمجھا کہ میرا باغ ہمیشہ یونہی رہے گا اور قیامت کا کوئی تصور نہیں ہے بالفرض اگر قیامت آ بھی گئی تو میں آخرت میں بھی آسودہ حال ہی رہوں گا جیسا کہ اس دنیا میں ہوں اس مرد مومن نے کہا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اس باغ کو تباہ وبرباد کر دے ، جس پر تمہیں ناز ہے چناچہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے باغ پر ایسی آفت نازل فرمائی کہ اسے ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ، پھر وہ شخص اپنے کفر وشرک پر پچھتایا مگر وقت گزر چکا تھا کہنے لگا ، کاش میں شرک نہ کرتا ، مجھ پر میرا شرک ہی کی نحوست پڑگئی ہے پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اختیار ، حکومت اور تصرف تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ثواب کے اعتبار سے بھی اور انجام کے اعتبار سے بھی صرف اسی کی ذات بہتر ہے جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ، انسان کو اسی پر ایمان رکھنا چاہئے اور اس کی توحید میں شرک کی ملاوٹ نہیں کرنی چاہئے کہ ایسا کرنا بہت بڑے ظلم کی بات ہے ۔ (دنیوی زندگی کی مثال) مومن اور کافر کی مثال بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دنیوی زندگی کی بےثباتی کی مثال بھی بیان کی ہے جس خاطر اکثر لوگ شرک میں مبتلا ہوتے اور قیامت کا انکار کرتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واضرب لھم مثل الحیوۃ الدنیا کمآئ “۔ آپ ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کریں جو کہ پانی کی مانند ہے اور پانی کی حقیقت یہ ہے (آیت) ” انزلنہ من السمآء “ جسے ہم نے آسمان کی طرف سے نازل کیا ، عربی زبان میں چھت ، فضا نیلگوں آسمان اور بادل وغیرہ سب پر سماء کا اطلاق ہوتا ہے بادل چونکہ اوپر فضا میں ہوتا ہے جس کے ذریعے بارش ہوتی ہے اس لیے یہاں پر سماء کا لفظ آیا ہے تاہم اس لفظ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بارش برسانے میں اوپر والے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا دخل ہوتا ہے اور اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ۔ بہرحال اللہ نے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی کی مثال پانی کے ساتھ دی ہے کہ ہم نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمائی (آیت) ” فاختلط بہ نبات الارض “ پھر وہ پانی زمین کے پودوں کے ساتھ مل گیا ، پانی زمین میں خلط ملط ہوا تو ا س سے طرح طرح کی سبزیاں ، پھل اور اناج پیدا ہوا (آیت) ” فاصبح ھشیما “۔ پھر وہ خشک ہو کر چورہ چورہ ہوگیا ” تذروہ الریح “ جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں ، جس طرح مینہ برسنے سے تروتازہ سبزہ پیدا ہوتا ہے ، پھر وہ اپنے وقت پر مرجھا جاتا ہے ، پھر خشک ہو کر ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں ، اور وہاں کچھ بھی نہیں رہتا ، اسی طرح انسان بڑا نرم ونازک حالت میں پیدا ہوتا ہے ، پھر جوان ہوتا ہے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرتا ہے ، زندگی کے بہترین حصے سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے پھر بوڑھا اور کمزور ہوجاتا اور آخر مر کر مٹی میں مل جاتا ہے لہذا زندگی کی اس عارضی اور پر فریب تروتازگی پر مفتون نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے اپنے زوال سے بھی باخبر ہونا چاہئے ، زندگی ایک بالکل عارضی چیز ہے اگر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آخرت کے لیے کوئی اچھا کام نہ کیا تو پھر آخرت کی دائمی زندگی میں ہمیشہ خسارا اٹھانا پڑے گا لہذا زندگی کی عارضی چیزوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ، (انسانی زندگی کی ناپائیداری) شیخ سعدی (رح) نے اس عارضی زندگی کا نقشہ اپنے اشعار میں کچھ اس طرح کھینچا ہے ۔ خوش است وعمر دریغا کہ جاودانی نیست بس اعتماد بریں پنج روز فانی نیست : ترجمہ : عمر بہت اچھی چیز ہے لیکن افسوس کہ یہ ہمیشہ رہنے والی نہیں ان پانچ فانی ایام پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ۔ دل اے رفیق بریں کارواں سرائے بسند کہ خانہ ساختن آئین کاروانی نیست : ترجمہ : اے دوست ! اس فانی سرائے میں مستقل ٹھکانا پکڑنا عقلمندی کی بات نہیں ہے ، کیونکہ کاروانوں والے گھر نہیں بنایا کرتے ۔ جہاں برآب نہادست وزندگی برباد غلام ہمت آنم کہ دل برونہ نہاد : ترجمہ : خدا نے جہان کی بنیاد پر رکھی ہے جب کہ زندگی کی بنیاد ہوا پر ہے میں تو اس شخص کی ہمت کا غلام ہوں جس نے ان پر دل نہیں رکھا ۔ کس را بقائے دائم وعہد مقیم نیست جاوید پادشاہی ودائم بقائے تست تو : ترجمہ ؛ کسی کے لیے بقائے دائم اور عہد مقیم نہیں ہے ، اے پروردگار ہمیشہ رہنے والی بادشاہی اور دائم عہد صرف تیری ذات ہی کا ہے ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کی مثال پانی کے ساتھ دے کر سمجھائی ہے (آیت) ” وکان اللہ علی کل شیء مقتدرا “۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جس طرح اللہ تعالیٰ سبزہ کو پیدا کرتا ہے ، پھر اسے خشک کرکے چورا چورا کردیتا ہے اور ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں اسی انسانی زندگی میں بھی اسی قسم کے مراحل آتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے ۔ (مال والاد بمقابلہ صالحات) اللہ نے فرمایا جس چیز پر تم زیادہ مفتون ہوتے ہو ، اس کی حقیقت بھی سن لو (آیت) ” المال والبنون زینۃ الحیوۃ الدنیا “۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی رونقیں ہیں (آیت) ” والبقیت الصلحت “۔ اور باقی رہنے والی نیکیاں ہیں (آیت) ” خیر عند ربک ثوابا “۔ جو بہت ہیں تیرے پروردگار کے پاس ثواب کے اعتبار سے (آیت) ” وخیر املا “۔ اور بہتر ہیں امید اور توقع کے اعتبار سے ، باقیات الصالحات کے سلسلے میں حدیث شریف میں کئی چیزوں کا ذکر آتا ہے ، مثلا اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کے کلمات ” سبحان اللہ والحمد للہ والا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ یا ” ولا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ باقیات الصالحات میں شمار ہوتے ہیں ، ان کلمات کا ورد کرنے والے اور ان کے مصداق پر یقین رکھنے والے شخص کے لیے دائمی نیکیوں کا ذخیرہ بنتا رہتا ہے ۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ باقی رہنے والی نیکیوں میں دین کی تعلیم کسی اچھی رسم کا اجراء جس پر دوسرے بھی عمل کرکے فلاح پاسکیں ، مسجد کی تعمیر ، ضرورت کے مقام پر رفاہ عامہ کے لیے پانی کا انتظام کردینا سرائے تعمیر کرنا ، وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں جن کا اجر انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ، اگر نیک اولاد پیچھے چھوڑی ہے تو وہ بھی باقیات الصالحات میں شمار ہوگی کہ یہ بھی صدقہ جاریہ ہے ، امام حسن بصری (رح) کی روایت کے مطابق اگر بیٹیوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی جائے تو بھی والدین کے حق میں باقیات الصالحات ہیں حالانکہ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ صلوۃ خمسہ روزے ، زکوۃ ، حج عمرہ ، جہاد سب باقیات الصالحات ہیں ، ان کے ضمن میں آنے والے سنن اور نوافل بھی اسی مد میں شمار ہوں گے ، بہرحال باقیات الصالحات وہ نیکیاں ہیں جن سے انسان کو دائمی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور جن سے اچھی توقع اور امید رکھی جاسکتی ہے ۔ (خدا کے حضور پیشی) آج تو انسان غرور وتکبر کی بناء پر قیامت کا انکار کرتا ہے ، مگر اللہ نے فرمایا وہ وقت آنے والا ہے (آیت) ” ویوم نسیر الجبال “ جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ، پھر کوئی اونچ نیچ یا پہاڑی ٹیلہ نظر نہ آئے گا ، حتی کہ زمین پر کوئی درخت بھی باقی نہیں رہے گا ، اس وقت (آیت) ” وتری الارض بارزۃ “ تو دیکھے گا زمین کو کھلی ہوئی اور نمایاں سورة طہ میں ہے (آیت) ” لا تری فیھا عوجا ولا امتا “۔ (آیت ، 107) زمین میں نہ کوئی کجی ہوگی نہ کوئی ٹیلہ اور نہ گڑھا ، پوری کی پوری زمین ہموار ہو جائیگی ۔ فرمایا وحشرنھم “۔ اس دن ہم سب کو اکٹھاکر لیں گے (آیت) ” فلم نغادر منھماحدا “۔ اور ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ، ہر ایک کو حساب کتاب کے لیے جمع ہونا ہوگا ۔ (آیت) ” وعرضوا علی ربک صفا “۔ اور سب کے سب تیرے پروردگار کے سامنے پیش کیے جائیں گے قطار در قطار ، ہر گروہ کے لوگوں کی الگ الگ قطار ہوگی نمازیوں کی علیحدہ اور بےنمازوں کی علیحدہ ، چور ، شرابی ، زنا کار ، وغیرہ علیحدہ علیحدہ قطاروں میں پیش کیے جائیں گے ۔ اور اجتماعی فیصلے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا (آیت) ” لقد جئتمونا کما خلقنکم اول مرۃ “۔ تحقیق تم آئے ہو ہمارے پاس جیسا کہ ہم نے تم میں پہلی مرتبہ پیدا کیا ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان پیدائش کی وقت بالکل برہنہ پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ کے حضور پیشی کے وقت بھی سب لوگ برہنہ جسم اور بےختنہ ہوں گے ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کیا ، حضور ! اس طرح تو بالکل بےپردگی ہوگی ، فرمایا عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اس وقت معاملات بڑے سنگین ہوں گے کسی کو کسی طرف دیکھنے کی ہوش ہی نہیں ہوگی ، بلکہ ہر شخص اپنی اپنی فکر میں غلطان ہوگا ، اور یہ فکر اسے دوسروں سے بےنیاز کر دے گی انہیں برہنگی کا احساس تک نہیں ہوگا ، بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حشر کے میدان میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا ، جب کفار نے آپ کو آگ میں پھینکا تھا تو آپ کا لباس بھی اتروالیا تھا ، اور رسیوں سے باندھ کر آگ میں پھینکا تھا حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ آپ کی اس تکلیف کی قدر دانی کریں گے اور آپ کو سب سے پہلے لباس پہنائیں گے ، البتہ ترمذی شریف کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے حضور ﷺ کی قبر مبارک شق ہوگی اور آپ کو باہر نکالا جائے گا ا س وقت نیک وبد اولیاء اور اتقیاء سب برہنہ ہوں گے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت سب سے پہلے جنت سے ایک سوٹ لا کر مجھے پہنایا جائے گا ۔ (نامہ اعمال بطور کھلی کتاب) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” بل زعمتم ان لن نجعل لکم موعدا “۔ بلکہ تم گمان کرتے تھے کہ ہم تمہارے لیے وعدہ کا وقت ہرگز نہیں مقرر کریں گے ، لیکن دیکھ لو اب وعدے کا وقت آگیا ہے ، پھر (آیت) ” ووضع الکتب “۔ کتاب یعنی ہر شخص کا نامہ اعمال کھول کر سامنے رکھ دیا جائے گا جسے ہر شخص خود پڑھ سکے گا (آیت) ” فتری المجرمین مشفقین ممافیہ “۔ پھر تو دیکھے گا مجرموں کو بڑے خوفزدہ ہوں گے اس چیز سے جو ان کے نامہ اعمال میں درج ہے ، اپنی زندگی بھر کا ریکارڈ دیکھیں گے (آیت) ” ویقولوں یویلتنا مال ھذا الکتب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا “۔ اور کہیں گے ، اے افسوس ، ہماری خرابی یہی کیسی کتاب ہے کہ نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو اس نے سب کچھ شمار کر رکھا ہے ، ہر چھوٹا بڑا اچھا یا براعمل عمل اس میں لکھا ہوا ہے ایک حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم ! یہ تیرے ہی اعمال ہیں جن کو میں نے شمار کرکے رکھا ہوا ہے ، اگر اپنے نامہ اعمال میں اچھائی پاؤ تو اللہ کا شکر ادا کرو ، اور اگر برائی پاؤ تو یہ تمہارے ہی اعمال ہیں ، ان کا بدلہ تمہیں مل کر رہے گا ، فرمایا (آیت) ” ووجدوا ماعملوا حاضرا “۔ اور پائیں گے وہ اس چیز کو اپنے سامنے جو انہوں نے عمل کیا ، ہر شخص کا ضمیر اس بات پر شاید ہوگا کہ نامہ اعمال میں درج شدہ تمام اعمال اسی کے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا ” ولایظلم ربک احدا “۔ اور تیرا پروردگار کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرے گا ، اللہ تعالیٰ کسی شخص کے برائی کا ارتکاب کیے بغیر اس کے نامہ اعمال میں ذرہ بھر بھی برائی درج نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی معمولی سے معمولی نیکی بھی بغیر اجر دیے چھوڑی جائیگی ، ہر نیکی وبدی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دنیا ہی عدل ہی اور اس کے خلاف کرنا ظلم ہے ، اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ قطعا زیادتی نہیں کرے گا ہر شخص کی نیکی اور بدی اس کے سامنے ہوگی اور وہ اس کے مطابق بدلہ پائیگا ۔
Top