Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو
(2:201) قنا۔ ق۔ نا۔ ق۔ فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور نا ضمیر مفعول جمع متکلم ۔ وقائ۔ وقایۃ۔ وقی۔ واقیۃ۔ مصادر (لفیف مفروق) بمعنی بچانا۔ پرہیز کرنا ۔ احتیاط کرنا۔ وقی یقی (باب ضرب سے) کسی دکھ دینے والی ضرر رساں چیز سے بچانا۔ ق نا۔ تو ہم کو بچا۔ تو ہم کو محفوظ رکھ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے : یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم نارا (66:6) اے ایمان والو ! اپنے رب کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جن ہم) سے بچاؤ۔ وفی سے مضارع اصل میں یوقی تھا۔ لفیف مفروق میںکلمہ کی تعلیل مثل معتل الفاء (مثال کے ہوتی ہے۔ لہٰذا مثال کی تعلیل کے مطابق کہ مضارع مکسور العین میں عین کلمہ سے پہلے جو واؤ واقع ہوتا ہے وہ حذف ہوجاتا ہے۔ جیسے وعد یوعد سے یعد لہٰذا یوقی یقی ہوگیا۔ لفیف مفروق کے لام کلمہ کی تعلیل مثل ناقص یائی ہوتی ہے لہٰذا مثل رمی میں ی پر ضمہ دشوار ہونے کی وجہ سے حذف ہوجاتا ہے یفیف مفروق کے لام کلمہ میں تعلیل کی وجہ سے یقی یقی ہوگیا۔ اسی کے مطابق صیغہ امر بنانے کے لئے علامت مضارع کو حذف کیا۔ اور آخر میں حرف علت کو گرا دیا تو ق رہ گیا جو امر واحد مذکر حاضر کا صیغہ بن گیا۔
Top