Ashraf-ul-Hawashi - An-Noor : 50
اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ بَلْ اُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠   ۧ
اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ : کیا ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : کوئی روگ اَمِ : یا ارْتَابُوْٓا : وہ شک میں پڑے ہیں اَمْ : یا يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں اَنْ : کہ يَّحِيْفَ اللّٰهُ : ظلم کرے گا اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول بَلْ : بلکہ اُولٰٓئِكَ : وہ هُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
کیا ان کے دلوں میں (کفر و نفاق کی) بیماری ہے یا ان کو (تیری پیغمبر میں) شک ہے یا وہ (اس سے) ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا بلکہ (ہے یہ ہے کہ) وہ خود ظالم ہیں8
8 ۔ یعنی آخر یہ اللہ و رسول ﷺ کی عدالت میں فیصلہ لے جانے سے کیوں کتراتے ہیں ؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری ہے یا انہیں اندیشہ ہے کہ ان کے پاس مقدمہ لے جائینگے تو ہم پر ظلم کا احتمال ہی نہیں ہے) مگر نہ تو ان کو آپ ﷺ کی نبوت میں شک ہے اور نہ ظلم ہی کا خوف ہے جس کی بدولت ان کے پاس مقدمہ لانے سے کترا رہے ہیں بلکہ ظالم (قصور وار) یہ خود ہیں یعنی جس شخص کا ان کے ذمہ حق ہے اس کو دبانا چاہتے ہیں۔ (جامع البیان و فتح) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دل میں روگ یہ کہ اللہ و رسول ﷺ کو سچ جانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں جیسے بیمارچاہتا ہے کہ چلے اور پائوں نہیں اٹھتے (موضح) اس سے معلوم ہوا کہ جو قاضی کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اس کے سمن کو قبول کرنا واجب ہے اور اس سے کترانا اللہ و رسول ﷺ کے فیصلہ سے منہ موڑنا ہے مگر جو قاضی کتاب و سنت سے بیخبر ہو اور اس نے کسی عالم مجتہد کے آرا و اجتہادات کو جمع کرلیا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو تو اس کے پاس مقدمہ لے جانا اور اس کے سمن کو قبول کرنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اس رائے پر عمل کرنا اس مجتہد کے لئے جائز تھا جس کی طرف وہ رائے منسوب ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک اسے کتاب و سنت کا فیصلہ نہ پہنچا تھا مگر کسی دوسرے کے لئے اس پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنا اور اس کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ (شوکانی)
Top