Ruh-ul-Quran - An-Noor : 50
اَفِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ بَلْ اُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۠   ۧ
اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ : کیا ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : کوئی روگ اَمِ : یا ارْتَابُوْٓا : وہ شک میں پڑے ہیں اَمْ : یا يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں اَنْ : کہ يَّحِيْفَ اللّٰهُ : ظلم کرے گا اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول بَلْ : بلکہ اُولٰٓئِكَ : وہ هُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
کیا ان کے دلوں میں (نفاق کی بیماری ہے یا یہ ابھی شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے، اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں
اَفْیِ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْھُمْ وَرَسُوْلُـہٗ بَلْ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (النور : 50) (کیا ان کے دلوں میں (نفاق کی بیماری ہے یا یہ ابھی شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے، اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں۔ ) منافقین کے طرزعمل کا تجزیہ منافقین کے رویئے اور طرز عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس کی تین ہی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ 1 ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے، یعنی وہ حقیقت میں مومن نہیں، محض دھوکہ دینے اور مسلم معاشرے میں شرکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں۔ 2 یا وہ ابھی تک شک میں مبتلا ہیں کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں یا نہیں۔ اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے یا نہیں۔ اور آخرت واقعی آنے والی ہے یا محض افسانہ تراشیدہ ہے۔ جو شخص ایسے شکوک میں مبتلا ہو ظاہر ہے کہ اس کے طرزعمل میں نہ یکسوئی پیدا ہوسکتی ہے اور نہ یک رنگی آسکتی ہے۔ اور نہ وہ اسلام کی خاطر کسی قربانی کی ہمت کرسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس ارتیاب کا مفہوم یہ ہو کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں اور اسلام کے مخالفین میں ایک کشمکش جاری ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی جارہی ہے، لیکن ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ دونوں گروہوں میں سے کون غالب آسکتا ہے۔ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں شبہ ہے۔ انھیں خیال ہے کہ شاید دوسرا گروہ غالب آجائے، تو اگر ہم کسی ایک گروہ کے ساتھ بتمام و کمال وابستہ ہوجائیں تو دوسرے گروہ کے غلبے کی صورت میں ہمارے لیے بےحد مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ چناچہ یہ شک انھیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور ان کے اندر اخلاص پیدا ہونے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ 3 وہ اللہ اور اللہ کے رسول سے ظلم کا اندیشہ رکھتے ہیں، یعنی ان کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے تمام احکام ہمارے حسب حال نہیں۔ ہم جس طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں شریعت اس کے بالکل برعکس ہمارے اندر ایک نیا طرز زندگی، نیا اسلوبِ حیات، نئی ثقافت، نئی تہذیب اور نیا تمدن پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان میں سے بہت ساری باتیں ہم صریحاً ظلم سمجھتے ہیں، اس سے تو ہم بالکل اپنے ماضی سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ جیسے ہمارا آج کا جاگیردار اسلامی وراثت کے احکام کو اپنے لیے ظلم سمجھتا ہے وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اگر ہم اسے اختیار کرلیں تو اس سے ہماری جاگیر بکھر کر رہ جائے گی اور ہم چند پشتوں میں عام آدمی کی سطح پر آجائیں گے۔ ہمارا آج کا تاجر اور اکانومسٹ سود کی حرمت کو اپنی معیشت کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ اس کا گمان یہ ہے کہ سود جدید معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے ختم کردینے سے ہماری معیشت کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ جو لوگ تقریبات میں حدود شرافت سے بڑھ جانے کو خوشی کا اظہار سمجھتے ہیں وہ اسلامی شریعت کے احکام کو خوشیوں کے قاتل اور زندگی کو بےرنگ بنا دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ ایسا ہی حال اس دور کے منافقین کا تھا اور وہی سوچ آج کے منافقین کا سرمایہ افتخار بنی ہوئی ہے۔ ان تین وجوہ کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ تینوں اسباب نفاق کی علامتیں ہیں، ان کا ایمان سے کوئی رشتہ نہیں۔ جو لوگ اس طرح کے خیالات کے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہوتے ہیں یا شامل رہنا چاہتے ہیں اور اس طرح سے مسلم معاشرے میں مختلف قسم کے ناجائز فائدے حاصل کرنے کی فکر میں ہیں، وہ درحقیقت خائن اور فریبی ہیں۔ وہ اپنے ضمیر کے قاتل ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے ان کے اندر وہ ذلیل ترین خصائص پیدا ہوتے ہیں جو نفاق کو بڑھاتے اور ایمان کے واجبی تعلق کو بھی ختم کردیتے ہیں۔ یہ وہ ظلم ہے جو یہ لوگ اپنے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے ظاہری کلمہ شہادت پر اعتماد کرکے مسلمان ان کے ساتھ جب معاملات کرتے ہیں تو یہ انھیں اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔
Top