Baseerat-e-Quran - Az-Zukhruf : 68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
(اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ) اے میرے بندو ! آج تم پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ رنجیدہ ہو گے۔
لغات القرآن آیت نمبر 68 تا 78 : تحبرون ( تم خوش کئے جائو گے) صحاف ( پلٹیں، رکابیاں) لا یفتر (ہلکا نہ کیا جائے گا) مبلسون ( ناامید ہوجانے والے) ما کثون (ٹھہرنے والے ، رکنے والے) تشریح : آیت نمبر 67 تا 78 : جو لوگ دنیا میں تقویٰ ، پرہیز گاری اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں اس کے بندے بن کر رہے تھے قیامت کے دن ان سے ارشاد فرمایا جائے گا کہ اے میرے بندو ! آج تمہارے لئے نہ تو ماضی کا خوف ہوگا اور نہ مستقبل کا رنج و غم ، تم اور تمہاری بیویاں اس جنت کے مستحق بنا دیئے گئے ہیں جن میں تمہاری ایسی خاطر تواضع کی جائے گی جس سے تم خوش ہو جائو گے اور خوشی کے آثار تمہارے چہروں پر نمایاں ہوں گے وہاں نو عمر خادم سونے کی پلٹیں اور گلاس لئے گھوم رہے ہوں گے۔ اور ان جنتوں میں ہر وہ چیز عطاء کی جائے گی جس سے دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوگی اور یہ سب کچھ تھوڑی سی مدت اور وقت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی ۔ اللہ کی طرف سے اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس میں تمہارے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو رکھا گیا تھا۔ لیکن ایک بھول کی وجہ سے جب ان کو جنت سے نکالا گیا تو یہ کہہ دیا گیا تھا کہ اگر دنیا میں جا کر تم نے اللہ کی ہدایت کے مطابق بہترین اعمال سر انجام دیئے تو پھر سے تمہیں اس جنت میں داخل کیا جائے گا ۔ چونکہ تم نے دنیا میں رہ کر ہمارے سارے حکم مانے اور ہمارے رسولوں کی پیروی کی اس لئے اب یہ جنت تمہیں پھر سے مل گئی ہے ۔ تم ان جنت کی راحتوں سے جتنا فائدہ چاہو اٹھا لو ، کھائو ، پیو تمہارے لئے ہر طرف ہر طرح کی نعمتیں بکھیر دی گئی ہیں۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کرتے کرتے مجرم بن گئے تھے ان کو ایسی جہنم اور اس کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ نہ تو ان پر سے کسی عذاب کو ہلکا کیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی رعایت کی جائے گی جس سے وہ مایوسی کی انتہاؤں پر پہنچ جائیں گے۔ وہ نہایت مایوسی اور نا امیدی کے ساتھ جہنم کے ایک فرشتے جس کا نام مالک ہوگا اس سے چلا چلا کر یہ کہیں گے کہ تم اپنے پروردگار سے یہ دعا کرو کہ وہ ہمیں جہنم کی اس شدید ترین تکلیف سے نجات کے لئے ہم پر موت طاری کر دے تا کہ اس اذیت سے ہم بچ سکیں گے۔ جہنم کا یہ فرشتہ یا داروغہ ان کے رونے چلانے کا سنتا رہے گا اور ایک ہزار سال کے بعد یہ جواب دے گا کہ تم دنیا اور اس کی لذتوں میں الجھے رہے اور تمہیں آخرت کا کبھی خیال تک نہ آیا اب تم ہمیشہ کے لئے اسی حالت میں رہو گے نہ مرو گے نہ جیو گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آج اگر یہ لوگ یہ لوگ اس حالت کو پہنچے ہیں تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے اللہ نے ان پر ظلم و زیادتی نہیں کی بلکہ انہوں نے خود ہی اس راستے کو منتخب کیا تھا جس کی سزا آج یہ بھگت رہے ہیں ۔ فرمایا جائے گا کہ ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعہ حق و صداقت کی بات کو پہنچا دیا تھا مگر جب بھی ان سے اس سچائی پر چلنے اور ماننے کے لئے کہا تو انہوں نے اس سے منہ پھیرا اور نفرت کا اظہار کیا
Top