Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
اے میرے بندو ! نہیں خوف تم پر آج کے دن اور نہ تم غمگین ہو گے
ربط آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے توحید کا ذکر اور ساتھ مشرکین کا رد فرمایا۔ پھر نبوت و رسالت کے سلسلہ میں پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اور پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر اور ان کی بعثت کا مقصد واضح کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الہ مان کر جو لوگ شرک میں مبتلا ہوئے ان کا انجام بیان فرمایا۔ پھر ایسے لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے بارے میں فرمایا کہ کیا اب یہ قیامت کے منتظر ہیں جو اچانک آجائے گی اور ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اس وقت لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ایک دسورے کی صورت دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ البتہ جو لوگ کفر ، شرک ، معاصی اور بدعقیدگی سے بچتے رہے۔ ان کی دوستی قیامت والے دن بھی قائم رہے گی۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کی دوستی معاش یا خواہشات نفسانیہ کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ محض رضائے الٰہی اور روحانی مناسبت کی وجہ سے تھی۔ جنت کی بےخوف و حزن زندگی اب آج کے درس میں پہلے اہل جنت کی زندگی اور ان کو ملنے والے انعامات کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر گنہگاروں کی جہنم رسیدگی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یعباد لاخوف علیکم الیوم اے میرے بندو ! آج کے دن تم پر خوف یا ڈر نہیں ہے۔ تم اپنے امتحان میں کامیاب ہو کر اللہ کی رحمت کے مقام میں پہنچ چکے ہو۔ اب تمہیں مستقبل میں کسی جسمانی یا روحانی تکلیف کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ تم ہمیشہ کے لئے امن و سکون ، آرام و آسائش اور سرور و فرحت کی زندگی بسر کرو گے۔ دنیا کی زندگی میں انسان کاتنا بھی خوشحال ہو مگر وہ مستقبل کے کسی نہ کسی خطرے میں ضرور پر یاشن ہوتا ہے۔ کسی نعمت کے چھن جانے کا خطرہ ہتا ہے ، کبھی صحت کی طرف سے پریشانی کہیں کسی مالی و جانی نقصان کا اندیشہ ، جوانی اور پھر عمر ہی بیت جانے کی فکر وغیرہ بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ جن کی وجہ سے انسان کسی نہ کسی وقت پریشان ہوجاتا ہے۔ مگر جو شخص جنت میں پہنچ گیا۔ وہ ہمیشہ کے لئے مامون ہوگیا۔ اسے مستقبل کے کسی نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ فرمایا ولا انتم ختزنون اور نہ ہی تم غمگین ہو گے۔ خوب اور غم میں یہ فرق ہے کہ خوف کسی آنے والی مشکل کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے جب کہ غم کسی سابقہ کارکردگی کی بنئا پر ہوتا ہے۔ فرمایا تمہاری سابقہ زندگی بھی چونکہ کفر ، شرک اور معاصی سے پاک گزر رہی ہوگی لہٰذا تمہیں اس زندگی کے اعمال پر کوئی غم بھی نہیں ہوگا کہ فلاں غلط کام کیوں کیا۔ برخلاف اس کے جو لوگ دنیا کی زندگی میں کفر اور شرک میں مبتلا رہے۔ نفاق اور الحاد کی ظلمتوں میں بھٹکتے رہے۔ انہیں اس زندگی پر غم اور افسوس ہوگا کہ انہوں نے اس زندگی کو ضائع کردیا۔ اور آخرت کے لئے کوئی توشہ تیار نہ کرسکے۔ الغرض ! فرمایا کہ قیامت والے دن جن متقیوں کو دوستیاں قائم رہیں گی انہیں نہ تو مستقبل کا کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ سابقہ زندگی پر پشیمان ہونگے ۔ فرمایا یہ بشارت ان لوگوں کے لئے ہے الذین امنوا بایتنا جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے۔ آیات میں احکام ، مسائل ، دلائل ، معجزات غرضیکہ تمام ایمانیات شامل ہیں۔ تو فرمایا خوف و غم سے مستثنیٰ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات اس کے انبیاء ، ملائکہ ، کتب سماویہ ، قیامت کے دن اور تقدیر پر ایمان لائے یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین کیا اور زبان سے ان کا اقرار کیا۔ قلبی یقین کے ساتھ ساتھ زبانی اقرار بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ فرمایا ایک تو وہ ایمان لائے اور دوسری بات یہ کہ وکانوا مسلمین کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بھی تھے ، اللہ کے ہر حکم کے اعضاء وجوارح سے تعمیل کرتے رہے ، نیکی کو انجام دیتے رہے اور منہیات سے بچتے رہے۔ گویا یہ بشارت ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استفاموا (حم السجدۃ 30- ) جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس بات پر مستقیم رہے ان پر رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور خوشخبری دیتے ہیں کہ خوف نہ کھائو اور غمگین نہ ہو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ پھر ان سے کہا جائے گا ادخلوا الجنۃ انتم وازواجکم تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جائو جب کسی نیکی آدمی کو جنت کی خوشخبری دی جائیگی تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی ساتھ ہی جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اگرچہ اس کے اعمال قدرے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر یہ اہل ایمان کی قدر دانی ہوگی کہ ان کی بیویوں کو بھی ان کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اس قسم کی خوشخبری میں سورة المومن میں بھی بیان ہوئی ہے۔ وہاں پر حاملین عرش فرشتوں کی دعا مذکور ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے اس طرح دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! انہیں رہنے کے باغوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے دعا کر رکھا ہے اور نہ صرف ان کو بلکہ ومن صلح من آبائھم وازواجھم وذریتھہ (آیت 80) ان کے آبائو ، اجداد ، بیویوں اور اولاد کو بھی جنہوں نے اچھے اعمال انجام دیئے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جائو تحبرون تم سب کی عزت افزائی کی ائے گی۔ تمہارا احترام ہوگا کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی کوفت نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی تذلیل و توہین کا خطرہ ہوگا۔ سونے چاندی کے برتن آگے اللہ تعالیٰ نے جنت کی بعض نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جو اہل جنت کو حصال ہوگی۔ فرمایا یطاف علیھم بصحاف من ذھب واکواب پھیرے جائیں گے ان پر سونے کے پیالے اور آجورے صحاف کے معنے رکابیاں پیالے یا پلٹیں ہیں اور اکواب مشروبات کے لئے استعمال ہونے دے گا یا آخورے کو کہتے ہیں : طلب یہ ہے کہ اہل جنت کو سونے کے برتنوں میں خوردو نوش کی اشیاء پیش کی جائیں گی۔ تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد علی درجے کے جنتی کے لئے سات لاکھ تک خدام ہوں گے جو اس کی خدمت اور اشیاء کی فراہمی کے لئے ہمہ وقت مستعد ہوں گے اور پھر یہ بھی ہے کہ ہر برتن میں کھانا پینا مختلف رنگوں اور مختلف ذائقوں پر مشتمل ہوگا جس سے جنتی لوگ مستفید ہوں گے روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ ہر برتن میں جنتی کی خواہش کے مطابق چیز موجود ہوگی۔ یہاں بھی فرمایا ہے۔ وفیھا ماتشھیہ الانفس سونے کے برتنوں میں ہر وہ چیز ہوگی جس کو نفس چاہیں گے۔ وثلۃ الاعرئیں اور جس سے آنکھیں لطف اندوز ہوں گی۔ یعنی وہ مناظر بھی جنت میں موجود ہوں گے جن سے انسان کی آنکھیں سرور حصال کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ نہایت ہی حسین منظر ہو سکے کیونکہ برے صفا سے تو آنکھیں خوش نہیں ہوتیں۔ غرضیکہ جنت میں اہل جنت کے لئے ہر وہ نعمت میسر ہوگی جس کے ذریعے انسان کے طبعی تقاضے پورے ہوتے ہوں یا جو قلب کی خوشی و مستر کا باعث بن سکتے ہوں۔ فرمایا وانتم فیھا خلدون اے ایمان والو ! تم رحمت کے اس مقام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہو گے اور وہاں سے کبھی نکالے نہیں جائو گے۔ مسلم شریف میں حضرت حذیفہ کا واقعہ آتا ہے کہ آپ نے ایران کے سفر کے دوران کسی مجوسی سے پانی طلب کیا تو اس نے چاندی کے آبخورے میں پانی پیش کیا۔ آپ نے پینے سے انکار کردیا اور دوبارہ پانی طلب کیا وہ پھر چاندی کے برتن میں پانی لایا کیونکہ ان کا طریقہ تھا کہ وہ بڑے آدمیوں کو سونے چاندی کے برتنوں میں اشیائے خوردو نوش پیش کرتے تھے۔ حضرت حذیفہ نے پانی کا دو برتن پھینک دیا کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے لاتشربو فی ایۃ الذھب والفضۃ ولا تاکلوا فی صحائفھا فان لھم فی الدنیا ولکم فی الاخرۃ اے ایمان والو ! سونے چاندی کے برتنوں میں مت کھائو پیو کیونکہ یہ دنیا میں کافروں کے لئے ہیں اور آخرت میں ہمارے لئے ہیں۔ آخرت میں کافران سے محروم رہیں گے۔ حضور ﷺ کا فرمان یہ بھی ہے کہ جو آدمی سونے چاندی کے برتن میں پانی پیتا ہے فانما خرجو فی بطنہ نارجھنم ایسا شخص اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ ڈالتا ہے۔ سونے چاندی کے زیورات کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ سونا مرد کے لئے تو قطعاً حرام ہے البتہ وہ ایک مثقال (ساڑھے تنی ماشے) تک چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے۔ تاہم عورت کے لئے سونے چاندی کے زیورات پہننا جائز ہے۔ …… جہاں تک سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے کا سوال ہے تو فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ مراد اور عورت دونوں کے لئے ممنوع ہیں۔ بعض اوقات لکڑی یا کسی دیگر دھات کا بنا ہوا برتن ٹوٹ جائے تو اس کو جوڑنے کے لئے سونے یا چاندی کا ٹان کہ لگا دیا جاتا ہے یا سونے چاندی کی تار سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام مالک ایسے برتن کے استعمال کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ البتہ دوسرے فقہائے کرام ایسے برتن کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت انس کے پاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا جو ٹوٹ گیا تو اس کو سونے یا چاندی کا پترا لگا کر جوڑ دیا گیا تھا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس پلیٹ میں حضور ﷺ کو ہر قسم کے مشروب پلائے ہیں۔ اس سے یہ جواز بھی نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص کا دانت ٹوٹ جائے تو اس کو سونے یا چاندی کے تار کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ ایک صحابی کی ناک کسی جنگ میں کٹ گئی تھی۔ پہلے اس کو چاندی کے ساتھ جوڑا گیا تو بدبو دیتی تھی۔ پھر سونے کی ناک لگائی گئی تو کام دے گئی۔ بہرحال سونے چاندی کا اس قسم کا استعمال تو روا ہے مگر سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے کی قطعی ممانعت ہے۔ اس سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ جب سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال روا نہیں تو ان کو اپنے پاس رکھنا بھی درست نہیں۔ ایسے برتن کو یا تو خیرات کردینا چاہئے یا کسی دوسری جنس میں تبدیل کرلینا چاہئے۔ یہی حکم تصویر ، مجسمہ یا صنم کے لئے بھی ہے ۔ ریشم کے متعلق حکم یہ ہے کہ اصل ریشم جو کپڑے کی ڈوری سے نکالا جاتا ہے وہ مردوں کے لئے ناجائز اور عورتوں کے لئے جائز ہے۔ البت جنت میں ریشم کا لباس مرد و زن سب کے لئے ہوگا۔ کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ولبا سھم فیھا جریر (فاطر 23- ) جنت میں جنتیوں کو خالص ریشم کا لباس پہنایا جائے گا۔ من پسند اشیاء فرمایا کہ جنت میں ہر من پسند چیز میسر ہوگی۔ ہر جنتی کی ہر جائز خواہش پوری کی جائیگی اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جنت میں کوئی بری خواہش پیدا ہی نہیں ہوگی۔ لہٰذا انسان کی ہر خواشہ پوری ہوگی۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دیہاتی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اونٹوں کو بہت پسند کرتا ہوں ، کیا مجھے یہ جانور جنت میں بھی میسر ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! تمہاری یہ خواہش پوری کی جائیگی۔ اسی طرح ایک شخص نے عرض کیا ، حضور ! مجھے کھیتی باڑی کا بڑا شوق ہے ، کیا میں یہ شوق جنت میں بھی پورا کرسکوں گا ؟ فرمایا ہو نہی کوئی شخص کا شتکاری کی خواہش کا اظہار رکے گا۔ تو اس کے سامنے فوراً زمین تیار کی جائیگی ، اس میں تخم ریزی ہوگی ، فصل اگ کر بڑی ہوگی اور پک کر تیار ہو جائیگی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے فصل کو کاٹ کر اناج کے ڈھیر لگا دیئے جائیں گے اور اس طرح تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ وہاں کسی موسم یا بارش کا اتنظار نہیں کرنا پڑے گا۔ بلکہ سارا عمل آناً فاناً مکمل ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم ! تمہاری یہ خواہش بھی پوری کردی گئی ہے۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ایک صحابی سے فرمایا کہ اصل چیز جنت کا داخلہ ہے اگر وہ تمہیں میسر آ گیا تو پھر تمہاری ہر خواہش پوری ہوگی۔ اگر چاہو گے تو یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر جہاں چاہو گے جا سکو گے۔ وہ تمہیں نہایت تیز رفتار کے ساتھ اڑا لے جائے گا حتی کہ لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرلو گے مگر نہ کوئی تھکاوٹ اور نہ کسی حادثے کا خطرہ ہوگا۔ جنت کی وراثت ارشاد ہوتا ہے وتلک الجنۃ التی اور ثموھا یہی ہے وہ جنت جو تم کو وراثت میں دی گئی ہے بما کنتم تعملون ان اعمال کے بدلے میں جو تم انجام دیتے تھے اگرچہ جنت میں داخلہ ایمان کی بنیاد پر ہوگا لیکن ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ درجہ اور مرتبہ تو اعمال کی وجہ سے ہی حاصل ہوگا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی کامیابی کا ذکر کیا ہے۔ وہاں ان الذین امنوا وعملوا الصلحت (البینۃ 7- ) کی شرط لگائی ہے اور جنت کی وراثت کا مطلب یہ ہے کہ یہ بنی نوع انسان کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی میراث ہے جنہیں اولا جنت میں رکھا گیا اور پھر زمین پر اتار دیا گیا ۔ آپ کو آدم (علیہ السلام) کی یہ میراث ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے ملے گی۔ فرمایا اس جنت میں لکم فیھا فاکھۃ کثیرۃ تمہارے لئے بہت سے پھل ہوں گے ومنھا تاکلون جن میں سے تم کھائو گے۔ یہ پھل سدا بہار ہوں گے اور کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ جونہی کسی درخت سے کوئی پھل توڑا جائے گا اس کی جگہ فوراً دوسرا پھل آجائے گا اور اس طرح یہ لامتناہی سلسلہ جاری رہے گا۔ جب کوئی جنتی کسی پھل کی خواہش کرے گا۔ درخت جھک کر اس کے قریب آجائے گا اور وہ اسے آساین کے ساتھ توڑ کر کھالے گا۔ گنہگاروں کا انجام ترغیب کے بعد اب اگلی آیت میں تربیب کو بھی بیان کیا ہے ان المجرمین فی عذاب جھنم خلدون بیشک مجرم اور گنہگار لوگ جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں کفر ، شرک ، نفاق اور الحاد کا شیوہ اختیار کیا اور کبائر و صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کے لئے سخت عذاب ہوگا لایفترعنھم جو ان سے ہلکا بھی نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ متواتر تیزی میں رہے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا ۔ وھم فیہ مبلسون کہ وہ اس عذاب میں آس توڑ بیٹھیں گے یعنی مایوس ہوجائیں گے کہ اب یہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ سورة الشوریٰ میں گزر چکا ہے کہ جب ظالم لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ یقولون ھل الی مرد من سبیل (آیت 44- ) تو کہیں گے کیا یہاں سے نکلنے کی کوئی صورت ہے ؟ مگر وہ جہنم سے خراج کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔ فرمایا وما ظلمنھم ہم نے اہل دوزخ پر کوئی زیادتی نہیں کی ہم نے تو دنیا میں ان کو راحت کے تمام سامان مہیا کئے۔ اس کے ساتھ عقل و شعور دیا ، ابنیاء اور کتب بھیجیں ، مبلغ اور منذر آئے اور سا طرح ہدایت کے تمام ذرائع مہیا کئے حکمرانوں نے کفر و شرک کا راستہ چھوڑا لہٰذا ہم نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ۔ ولکن کانوھم الظلمین بلکہ یہ خود ہی ظالم اور بےانصاف تھے انہوں نے اپنے اختیار اور ارادے سے غلط راستہ اختیار کیا اور اس طرح جہنم میں پہنچ گئے ہم نے تو ان پر بالکل ظلم نہیں کیا۔
Top