Dure-Mansoor - Al-Kahf : 38
لٰكِنَّاۡ هُوَ اللّٰهُ رَبِّیْ وَ لَاۤ اُشْرِكُ بِرَبِّیْۤ اَحَدًا
لٰكِنَّا۟ : لیکن میں هُوَ : وہ اللّٰهُ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَلَآ اُشْرِكُ : اور میں شریک نہیں کرتا بِرَبِّيْٓ : اپنے رب کے ساتھ اَحَدًا : کسی کو
لیکن میری بات تو یہ ہے کہ وہ اللہ میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا
1:۔ ابن ابی حاتم نے اسماء بنت عمیس ؓ سے روایت کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ کلمات سکھائے تھے کہ میں ان کو تکلیف اور مصیبت کے وقت کہتی ہوں۔” اللہ اللہ ربی لا اشرک بہ شیئا “ (اللہ ہی میرا رب ہے میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی ) ۔ 2:۔ سعید بن منصور ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں عروہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے مال میں سے کسی چیز کو دیکھتے جو ان کو خوش (اچھی) لگتی یا اپنے باغوں میں سے کسی باغ میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے ” ماشآء اللہ لا قوۃ الاباللہ “ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے تھے (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشآء اللہ لا قوۃ الاباللہ “۔ 3:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے زیاد بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ ابن شہاب جب اپنے مال پر داخل ہوتے تو فرمایا (آیت) ” ماشآء اللہ لا قوۃ الاباللہ “ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک “ کی تاویل کرتے تھے (یعنی دلیل لیتے تھے) 4:۔ ابن ابی حاتم نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ مالک (رح) جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو فرماتے (آیت) ” ماشآء اللہ “ میں نے مالک ‘ سے کہا یہ آپ کیوں کہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کیا آپ اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنتے (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشآء اللہ “۔ اچھی حالت دیکھ کر ماشاء اللہ کہنا : 5:۔ ابن ابی حاتم نے حفص بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے وھب بن منبہ (رح) کے دروازے پر ” ماشآء اللہ “ لکھا ہوا دیکھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشآء اللہ “۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن مرہ (رح) سے روایت کیا کہ کسی آدمی کا یہ کہنا ” ماشآء اللہ “ افضل دعا میں سے ہے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے ابراہیم بن ادہم (رح) سے روایت کیا کہ کوئی آدمی کسی مسئلہ میں سوال کرتا ہے وہ ” ماشآء اللہ “ کہنے سے جلدی کامیاب ہونے والا ہوتا ہے۔ 8:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں یحییٰ بن سلیم طائفی (رح) سے اور وہ اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ذکر کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ایک حاجت کا سوال کیا لیکن اس کے پورا ہونے میں دیر ہوگئی تو انہوں نے فرمایا ” ماشآء اللہ “ تو ان کی حاجت پوری ہو کر سامنے آگئی (یعنی جلدی ہی پوری ہوگئی) عرض کیا اے میرے رب کہ میں اپنی حاجت کو اتنے اور اتنے عرصے سے طلب کررہا تھا اب آپ نے مجھے وہ عطا فرمائی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اے موسیٰ کیا تجھے علم نہیں ہے کہ تیرا ماشاء اللہ کہنا زیادہ جلدی پورا کرنے والا ہے ان ضرورتوں کو جو تو اس کے ذریعے طلب کرلے۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، اور نسائی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تجھ کو جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے بارے میں نہ بتاوں ؟ عرض کیا وہ کیا ہے فرمایا ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ 10:۔ ابن سعد، احمد، ترمذی اور نسائی نے (ترمذی نے صحیح بھی کہا) قیس بن سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کیا کہ ان کے والد نے ان کو نبی کریم ﷺ کی خدمت کے لئے آپ کے پاس چھوڑ آئے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں دو رکعت پڑھ کر لیٹ چکا تھا آپ نے مجھے پاوں سے مارا اور فرمایا کیا میں تجھ کو جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کا نہ بتاوں ؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے فرمایا (وہ ہے) ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ 11:۔ احمد نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوذر ؓ سے فرمایا اے ابوذر کیا میں تجھ کو جنت کے خزانوں میں سے ایک کلمہ نہ بتاوں ؟ عرض کیا ضرور بتائیے فرمایا (وہ ہے) ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ 12:۔ ابن ابی شبیہ اور احمد نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تجھ کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کا نہ بتاوں ؟ عرض کیا ضرور بتائیے آپ نے فرمایا ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ نے ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ کو کثرت سے پڑھو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کیا میں تم کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کے بارے میں نہ بتاوں ؟ تم ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ کی کثرت کرو۔ 15:۔ ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ کہنے سے آفات سے حفاظت ہوتی ہے : 16:۔ ایویعلی ابن مردویہ اور بیہقی نے بعث میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس بندہ پر کوئی انعام فرماتے ہیں اہل عیال میں یا مال میں اور وہ (اس کو دیکھ کر) کہتا ہے۔” ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ تو ( اس کی برکت سے) اللہ تعالیٰ اس کی ہر آفت کو دور فرما دیتے ہیں یہاں تک کہ اس پر موت آجائے اور یہ (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “۔ 17:۔ ابن ابی حاتم نے دوسری سند کے ساتھ انس ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص اپنے مال میں کوئی ایسی چیز دیکھے جس کو وہ پسند کرے اور وہ کہہ دے (آیت) ” ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ اس مال کو کبھی کوئی آفت نہیں پہنچے گی اور یہ (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت “ پڑھی۔ 18۔ ابن مردویہ نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس بندے پر اللہ تعالیٰ کسی نعمت کا اکرام فرمائیں اور وہ اس کو باقی رکھنے کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ کثرت سے ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ پڑھے پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ پڑھی۔ 19:۔ احمد نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تجھ کو عر ش کے نیچے سے جنت کا ایک خزانہ نہ بتاوں ؟ میں نے کہا ہاں (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا تو کہہ ” لا قوۃ الا باللہ “ عمرو بن میمون (رح) نے کہا میں نے ابوہریرہ ؓ سے کہا ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کا کلمہ مراد ہے تو انہوں نے فرمایا نہیں یہ سورة کہف میں ہے (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “۔ 20:۔ ابن مندہ نے صحابہ میں حماد بن سلمہ کے طریق سے سماک سے اور انہوں نے جریر (رح) سے روایت کیا کہ میں فارس کی طرف نکلا تو میں نے کہا ” ماشآء اللہ، لا قوۃ الا باللہ “ ایک آدمی نے سن لیا اور کہا یہ کیا کلام ہے میں نے اس کو نہیں سنا کسی ایک سے جب سے میں نے اس کو آسمان سے سنا ہے ؟ میں نے اس کو کہا تو وہ آسمانوں کی خبر یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس نے کہا میں کسری کے ساتھ تھا اس نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں گیا شیطان میرے گھر میں میرے پیچھے میری شکل و صورت میں رہا وہ میرے سامنے آیا اور کہنے لگا میرے ساتھ شرط لگاؤ اس بات پر کہ ایک دن میرے لئے ہوگا اور ایک دن تیرے لئے ہوگا ورنہ میں تجھ کو ہلاک کردوں گا میں بات پر راضی ہوگیا وہ میرا ساتھی بن گیا وہ مجھ سے باتیں کرتا تھا اور میں اس سے باتیں کرتا تھا ایک دن وہ مجھے سے کہنے لگا میں ان شیطانوں میں سے ہوں جو چوری چھپے آسمان کی باتیں سنتے ہیں اور آج رات میری باری ہے میں نے کہا کیا تیرے لئے ممکن ہے کہ میں تیرے ساتھ چھپ جاوں اس نے کہا ہاں وہ تیار ہوا اور میرے پاس آیا اور کہا میری معرفت سیکھ لے اس کو نہ چھوڑنا ورنہ ہلاک ہوجائے گا میں نے اس کی معرفت حاصل کی مجھ کو وہ اوپر لے گیا یہاں تک کہ میں نے آسمان کو ہاتھ لگایا اچانک ایک کہنے والے نے کہا ” ماشآء اللہ، لا قوۃ الا باللہ “ پس یہ سنتے ہی سارے شیطان مونہوں کے بل گرپڑے اور میں بھی گرپڑا میں اپنے گھروالوں کے پاس لوٹا کچھ دنوں کے بعد وہ بھی آگیا میں نے کہنا شروع کیا ” ماشآء اللہ، لا قوۃ الا باللہ “ روای نے کہا اس سے وہ پگھل گیا یہاں تک کہ مکھی کی طرح ہوگیا پھر مجھ سے کہا تو نے اس کلمہ سے اپنی حفاظت کرلی پھر وہ ہم کو چھوڑ کر چلا گیا۔ 21:۔ احمد نے یحییٰ بن سلیم طائفی (رح) سے اور وہ اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا وہ کلمہ کہ جس کے ذریعہ فرشتے شیطانوں کو جھڑکتے ہیں جب وہ چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں ” ماشآء اللہ “ ہے۔ 22:۔ ابونعیم نے حلیہ میں صفوان بن سلیم (رح) سے روایت کیا کہ کوئی فرشتہ زمین سے نہیں اڑ سکتا یہاں تک کہ وہ ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کہہ لے۔ 23:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے اور اس کا سب سے آسان غم (کو دور کرنا) ہے۔ 24:۔ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کی یہ تفسیر بتائی کہ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کی قوت سے اور اللہ کی اطاعت کے بھی کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کی مدد کے ساتھ۔ 25:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو کوئی طاقت نہیں اطاعت کی مگر اللہ کی مدد کے ساتھ اور ہم کو کوئی طاقت نہیں گناہ چھوڑنے کی مگر اللہ کے ساتھ۔ 26:۔ ابن ابی حاتم نے زہیربن محمد (رح) سے روایت کیا کہ ان سے ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا تو اللہ کی توفیق کے بغیر اپنی آرزو پورا نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کسی مصیبت سے نہیں بچ سکتا۔
Top