Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 47
وَ عُرِضُوْا عَلٰى رَبِّكَ صَفًّا١ؕ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍۭ١٘ بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَكُمْ مَّوْعِدًا
وَعُرِضُوْا : اور وہ پیش کیے جائیں گے عَلٰي : پر۔ سامنے رَبِّكَ : تیرا رب صَفًّا : صف بستہ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا : البتہ تم ہمارے سامنے آگئے كَمَا : جیسے خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار بَلْ : بلکہ (جبکہ) زَعَمْتُمْ : تم سمجھتے تھے اَلَّنْ نَّجْعَلَ : کہ ہم ہرگز نہ ٹھہرائیں گے تمہارے لیے لَكُمْ : تمہارے لیے مَّوْعِدًا : کوئی وقتِ موعود
اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کئے جائیں گے … لو دیکھ لو ، آگئے نا تم ہمارے پاس اسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار یدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے
یہ ایک منظر ہے جس میں اس کائنات کا طبیعی ماحول ، اور اس کائنات اور انسانی دلوں پر خو و ہراس کے نقوش داع نظر آتے ہیں۔ اس منظر کے کردار بڑے بڑے پہاڑ ہیں جو دیکھتے دیکھتے دھواں بن جاتے ہیں اور یہ نہایت تیزی سے چلتے ہیں ، دلوں پر خوف طاری ہے ، زمین اچانک چٹیل میدان بن جاتی ہے۔ نہ اس میں سرسبزی اور شادابی ، نہ پہاڑ ہیں اور نہ خوبصورت وادیاں بلکہ دلوں کے حال میں اس منظر میں سامنے آجاتے ہیں اور کوئی بات خفیہ نہیں رہتی۔ یہ ہموار اور چٹیل میدان زمین ، جو کسی چیز کو نہیں چھپا سکتی اور نہ اس پر کسی کے چھپنے کی کوئی جگہ ہے ، اسی زمین سے یکدم تمام مخلوقات اک آئے گی۔ وحشرنھم فلم نغادر منھم احداً (81 : 83) ” انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ ایک بھی نہ چھوٹے گا۔ “ اس جامع حشر کے بعد اگلا منظر پھر اللہ کے سامنے حاضری کا ہے۔ وعرضوا علی ربک صفاً (81 : 83) ” سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کئے جائیں گے۔ “ یہ تمام مخلوق جس کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ اس وقت سے لے کر جب سے انسانیت کو یہاں بسایاگ یا اور جب تک اس زمین پر انسانیت کو آہستہ آہستہ مٹایا گیا۔ یہ سب مخلوق اٹھائی جا چکی ہے ، سب جمع ہوگئی ہے ، حلقوں کی شکل میں کھڑی ہے ، کوئی آدمی بھی غیر حاضر نہیں ہے ، کیونکہ سب زمین ایک میدان ہے۔ اس میں چھپنے کی کوئی جگہ ہی نہیں۔ اب بات کا انداز ایک بیانیہ منظر سے ، طاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ گویا منظر سامنے موجود ہے اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں اور اس میں جو مکالمہ ہو رہا ہے گویا ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہیں اور کانوں سے سن رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اس منظر کے وجود میں آنے کے منکر تھے ، ان کے چہروں پر شرمندگی بالکل عیاں ہے۔ لقد جئتمونا کما خلقنکم اول مرۃ بل زعمتم الن نجعل لکم موعداً (81 : 83) ” دیکھ لو آگ یء نا تم ہمارے پاس جیسے ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا تھا۔ “ اس بیانیہ انداز خطاب میں یکلخت تبدیلی کر کے اسے خطابی انداز میں لانے سے منظر میں ایک طرح کی زندگی پیدا کردی جاتی ہے۔ کردار زندہ و متحرک نظر آتے ہیں اور منظر ہمارے سامنے مجسم ہوجاتا ہے۔ گویا یہ مستقبل میں آنے والا قیام قیامت کا کوئی منظر نہیں ہے۔ بلکہ موجودہ دور کا منظر ہے۔ جو لوگ قیامت کی تکذیب کرتے تھے ان کے چہروں پر شمندگی صاف صاف نظر آتی ہے اور باری تعالیٰ کی ڈانٹ ان لوگوں کی سر زنش یوں کر رہی ہے ۔ لقد جئتمونا کما خلقنکم اول مرۃ (81 : 83) ” آگئے ناتم ہمارے سامنے اس طرح جس طر ہم نے ت میں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ “ اور تم یہ سمجھتے تھے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ بل زعمتم الن نجعل لکم موعدا (81 : 83) ” تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا تھا۔ ‘ بیانیہ انداز کلام سے خطاب کی طرف آنے کے بعد پھر قایمت کے واقعات کا بیان شروع ہوتا ہے۔
Top