Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقْرَبُوا
: نہ نزدیک جاؤ
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
سُكٰرٰى
: نشہ
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَعْلَمُوْا
: سمجھنے لگو
مَا
: جو
تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے ہو
وَلَا
: اور نہ
جُنُبًا
: غسل کی حالت میں
اِلَّا
: سوائے
عَابِرِيْ سَبِيْلٍ
: حالتِ سفر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَغْتَسِلُوْا
: تم غسل کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: مریض
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر۔ میں
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ جَآءَ
: یا آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں
مِّنَ
: سے
الْغَآئِطِ
: جائے حاجت
اَوْ
: یا
لٰمَسْتُمُ
: تم پاس گئے
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر تم نے نہ پایا
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: مسح کرلو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَفُوًّا
: معاف کرنیوالا
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہئے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ‘ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو ‘ الا یہ کہ راستے سے گزرتے ہو ‘ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو ‘ یا سفر میں ہو ‘ یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے ‘ یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو ‘ اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو ‘ بیشک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے
یہ بھی جماعت مسلمہ کی تربیت کی ایک اہل کڑی ہے جسے اسلامی نظام حیات نے جاہلیت کی پستیوں سے سربلند کیا ۔ شراب نوشی جاہلی معاشرے کی ایک عام اور بنیادی عادت تھی بلکہ قدیم اور جدید جاہلیتوں کی یہ امتیازی خصوصیت رہی ہے ۔ رومی معاشرہ جب اپنی ترقی کے انتہائی عروج پر تھا تو شراب نوشی اس کی ممتاز ترین خصوصیات میں سے ایک تھی ، اسی طرح فارس کے جاہلی معاشرے کی اہم خصوصیات میں سے شراب نوشی ایک اہم خصوصیت تھی ۔ آج امریکی اور یورپین تہذیب اور جاہلیت اپنے عروج پر ہیں اور شراب نوشی انکی ممتاز ترین صفت ہے ۔ افریقہ میں جو ترقی یافتہ معاشرے گزرے ہیں ان کی خصوصیات میں بھی یہ اہم خصوصیت رہی ہے ۔ سویڈن آج کے ترقی یافتہ جاہلی ممالک میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے گزشتہ صدی کے نصف آخر میں اس کا حال یہ تھا کہ اس کا ہر خاندان اپنے لئے مخصوص شراب استعمال کرتا تھا ۔ اور ان میں سے ہر فرد اوسطا بیس لیٹر شراب پیتا تھا ۔ حکومت سویڈن کو ان اعداد سے تشویش لاحق ہوئی کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ نشے کے خطرناک حد تک عادی بنتے جارہے تھے ۔ حکومت نے یہ پالیسی اختیار کی کہ شراب خرید کر اسے سٹور کیا جائے ۔ اور انفرادی استعمال کے اعداد و شمار کی حد کو کم کرنے کی سعی کی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے عام مقامات پر شراب نوشی کی ممانعت کردی ۔ لیکن حکومت نے جلدی اپنے اقدامات سے رجوع کرلیا ہے اور عائد شدہ پابندیوں میں تخفیف کردی گئی ۔ ہوٹلوں میں شراب نوشی کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر کوئی کھانا کھائے تو شراب پی سکتا ہے ۔ اس کے بعد پبلک مقامات میں سے بعض مقامات پر اجازت دے دی گئی اور یہ اجازت بھی نصف رات تک دی گئی ۔ نصف رات کے بعد نبیذ اور بیر کے استعمال کی اجازت دی گئی لیکن نوجوانوں کے اندر شراب نوشی کی عادت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ امریکہ میں ایک دفعہ حکومت نے اس بری عادت کو ختم کرنے کا ارادہ کیا ۔ 1919 ء میں اس نے قانون تحریم شراب نوشی پاس کیا ۔ اس قانون کو خشکی کا قانون کہا گیا ۔ اس لئے کہ اس نے شراب نوشی کے ذریعے آبپاشی کو منع کردیا ۔ یہ قانون صرف 14 سال تک چل سکا اور حکومت نے اسے 1923 ء میں منسوخ کردیا ۔ اس قانون کی حمایت میں حکومت امریکہ نے ریڈیو ‘ سینما ‘ تقاریر اور نشرواشاعت اور پروپیگنڈے کے جدید ترین وسائل استعمال کئے ۔ صرف شراب نوشی کے خلاف نشرواشاعت پر حکومت نے اس وقت 60 ملین ڈالر خرچ کئے اور جو کتابیں ‘ رسالے اور پمفلٹ شائع کئے گئے وہ دسیوں بلین صفحات پر مشتمل تھے ۔ اس قانون کے پاس کرنے کی وجہ سے حکومت کو 250 بلین پونڈ کے اخراجات بشکل تاوان دینے پڑے ۔ تین سو افراد لقمہ اجل بنے ۔ 335 ‘ 32 ‘ 5 افراد قید ہوئے ‘ 61 ملین پونڈ جرمانے ہوئے ‘ چار بلین اور 400 ملین پونڈ مالیت کی جائیدادیں ضبط ہوئیں ۔ لیکن ان اقدامات کے باوجود حکومت اس قانون کو منسوخ کرنے پر مجبور ہوئی اور اس نے پسپائی اختیار کی ۔ جاہلیت میں شراب نوشی ایک عادت تھی لیکن اسلام نے چند آیات نازل کر کے اس کا خاتمہ کردیا ۔ یہ ہے وہ فرق نفس انسانی اور انسانی معاشرے کے ساتھ اسلامی طرز عمل اور جاہلی طرز عمل اور طریقہ تربیت کا ۔ اور قدیم زمانے میں بھی یہ فرق تھا اور آج بھی یہ فرق اپنی جگہ قائم ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں شراب نوشی کا کیا حال تھا ؟ اس کی حقیقی صورت حال اس شخص کو معلوم ہوگا جو دور جاہلیت کے اشعار کا قدرے گہرا مطالعہ کرے گا ۔ ادبی موضوعات میں سے شراب اہم ترین موضوع رہا ہے جیسا کہ جاہلی زندگی میں یہ ایک اہم خصوصیت تھی ، شراب اس قدر فروخت ہوتی تھی کہ تجارت کا لفظ عام تجارت کے بجائے شراب کی فروخت کے ساتھ مخصوص ہوگیا ۔ مشہور شاعر ولید کہتا ہے۔ قد بت سامرھا وغایۃ تاجر وافیت اذ رفعت رعز مدامھا : (حیش و عشرت کی کئی ایسی راتیں میں نے قصہ گوئی میں بسر کیں اور ان میں شراب ایسے تاجروں کے پاس پہنچی جنہوں نے اپنی کالونی پر نئے نئے جھنڈے لگائے تھے اور پرانی شراب کے دام بہت ہی چڑھ گئے) عمرو ابن قمیہ کہتا ہے ۔ اذا اسحب الربط والمروط الی ادنی تجاری وانفض اللمما : ّ (اس جوانی کے وقت کو یاد کرو جب ریشم کے قیمتی کپڑے پہن کر اپنے قریب ترین شراب فروش کے پاس پہنچ جاتا تھا اور اپنے سر کے لمبے لمبے بالوں کو سر کی حرکت کی وجہ سے جھاڑتا تھا نشہ ‘ شراب اور غرور کی وجہ سے) مجالس شراب نوشی کا بیان اور شراب نوشی پر فخر کے مضامین سے جاہلیت کے اشعار بھرین ہوئے اور یہ ان کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے ۔ امراء القیس کہتے ہیں ۔ 1۔ واصحبت ودعت الصباغیر اننی اراقب حلالت من العیش اربعا : 2۔ فمنھن قولی للندامی ترفقوا بداجون نشاجا من الخمر مترعا : 3۔ ومنھن رکض الخیل ترجم بالقنا یبادرون معربا امنا ان یفزعا : (1) صبح ہوئی اور اس نے شراب کو الواداع کہہ دیا ‘ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو زندگی کی چار صفات کو بہت پسند کرتا ہوں ۔ (2) پہلی یہ کہ اپنے ہم پیالہ می خواروں کو یہ (3) ان میں سے ایک یہ کہ میں گھوڑا ایڑھی لگاؤں اور تیر پھینکتے ہوئے نیل گایوں کے ایسے گلے پر جھپٹ کر خوفزدہ کر دون جو نہایت ہی امن و سکون سے چر رہا تھا ۔ اور طرفہ ابن العبد کہتے ہیں : فلولا ثلاث ھن من عیسۃ الفتی وجدک لم احفل متی قام عودی : اگر تین چیزیں نہ ہوتیں جو ایک نوجوان کے لئے سامان عیش ہیں تو تیرے سر کی قسم میں اپنی پوری زندگی میں کسی محفل میں شریک نہ ہوتا ۔ فمنھن سبق العاذلات بشربۃ کمیت متی ماتعل بالماتزبد : ان میں سے ایک یہ ہے کہ شرمسار کنندہ عورتوں سے بھی آگے بڑھ کر کلیجی رنگ کا جام اٹھا لیتا ہوں جس میں اگر پانی ڈالا جائے تو کف آجائے ۔ وما زال تشرب الخمور ولذتی وبذنی وانفاقی طریفی وتالدی : میں ہمیشہ شراب نوشی اور لذت نوشی کا عادی ہو اور مسلسل اپنی جدت دولت اور تازہ جمع کردہ مال کو خرچ کرتا رہتا ہوں ۔ الی ان تحامثنی العشیرہ کلھا یہاں تک کہ ہر قبیلہ میری دشمنی پر اتر آیا اور میں اس طرح اکیلا ہوگیا ہوں جس طرح خارش زدہ اونٹ علیحدہ کردیا جاتا ہے ۔ اور اغشی کہتے ہیں : فقد شرب الراح تعلمین یوم المقام دیوما لظعن : (میں شراب پیتا ہوں اور تمہیں خوب خبر ہے قیام کے دن بھی اور سفر کے دن بھی ۔ واشرب بالریف حی یقا لی قد طال بالریف ما قد دجن : اور میں سرسبزی اور شادابی میں بہت پیتا ہوں یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اب کے موسم بہار کی بارشوں میں بہت عوانت ہوگئی ہے ۔ مخسل لیثکری کہتے ہیں ۔ (1) لقد شربت من المدامۃ بالصغیر وبالکبیر : (2) فاذا سکرت فانی رب الخورنق والسدیر : (3) واذا اصحوت فاننی رب الشویۃ والبعیر : (1) میں ہمیشہ شراب نوشی کرتا ہوں ‘ چھوٹوں کے ساتھ بھی اور بڑوں کے ساتھ بھی ۔ (یعنی ہر محفل میں) (2) اگر میں بےہوش ہوجاؤں تو حورنق اور سدیر نامی قلعوں کا مالک ہوں ۔ (یعنی ان قلعوں میں دادعیش دیتا ہوں اور اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہوں) (3) اور اگر میں ہوش میں ہوا تو پھر میں بکریوں اور اونٹوں کا مالک ہوں ۔ (یعنی بکریاں اور اونٹ ذبح کرتا ہوں اور چراتا ہوں) ۔ تحریم شراب کے مختلف مراحل میں جو واقعات پیش آئے اور ان واقعات کا تعلق جن لوگوں سے ہے ‘ مثلا حضرت عمر ؓ علی ؓ حمزہ ؓ عبدالرحمن ؓ ابن عوف اور ان جیسے دوسرے مشہور صحابہ ؓ اجمعین ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریم شراب سے قبل اس کا رواج کس قدر زیادہ تھا ‘ خصوصا دور جاہلیت میں بعض واقعات مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کافی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ اپنے قصہ اسلام میں بیان کرتے فرماتے ہیں : ” میں جاہلیت میں شراب نوشی کا عادی تھا میں نے سوچا کہ فلاں شراب فروش کے پاس جاؤں اور شراب پی لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ اسلام میں بھی حضرت عمر ؓ شراب استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “۔ (2 : 219) ” لوگ آپ سے جوئے اور شراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ کہہ دیں ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں اور ان کا گناہ انکے نفع سے بڑا ہے ۔ “ تو حضرت عمر ؓ نے دعا کی : ” اے اللہ ہمارے لئے شراب کے بارے میں کافی وشافی بیان نازل فرما دے ۔ “ اور آپ نے شراب نوشی کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ شراب کی حرمت کا صریح حکم نازل ہوا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (90) انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون “۔ (91) (5 : 90۔ 91) (شراب جوا اور آستانے اور پانسے شیطان کے ناپاک اعمال ہیں ‘ لہذا ان سے اجتناب کرو ‘ امید ہے کہ تم فلاح پالو گے ‘ بیشک شیطان صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے بغض وعداوت پیدا کردے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ۔ کیا تم اس سے باز آؤگے ؟ ) اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا ہاں ہم باز آگئے باز آگئے اور اس کے بعد شراب نوشی سے رک گئے اور آیت (یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری “۔ (4 : 43) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اس وقت تک نماز کے قریب مت جاؤ جب تک تم نشے کی حالت میں ہو) کے بارے میں دو روایات وارد ہیں جن میں مہاجرین میں سے حضرت علی ؓ اور عبدالرحمن بن عوف اور انصار میں سے سعد بن معاذ شریک واقعہ ہیں ۔ ابن ابی حاتم ‘ یونس ابن حبیب ‘ ابو داؤد ‘ مصعب ابن سعد وہ اپنے والد سعد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے بارے میں چار آیات نازل ہوئیں ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک انصاری نے دعوت طعام تیار کی ۔ اس نے کچھ لوگ مہاجرین کے اور کچھ انصار کے بلائے ۔ ہم نے کھایا پیا یہاں تک کہ ہم مدہوش ہوگئے ‘ پھر اپنے اپنے بارے میں مفاخر بیان کرتے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لی اور سعد کی ناک پر دے ماری ۔ چناچہ سعد مغروزالانف تھے ۔ یہ واقعہ شراب نوشی کی حرمت سے پہلے کا ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری (4 : 43) یہ ایک طویل حدیث ہے جو امام مسلم نے شعبہ سے نقل کی ہے ۔ ابن ابی حاتم ‘ ابن عمار عبدالرحمن ابن عبداللہ دشت کی ابو جعفر ‘ عطاء ابو عبدالرحمن ؓ اجمعین کی سند سے حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ عبدالرحمن ابن عوف ؓ نے ہمارے لئے کھانا تیار کیا ۔ اس نے ہمیں دعوت دی اور شراب پلائی ‘ شراب نے ہمیں لے لیا ‘ اور نماز کا وقت ہوگیا ۔ لوگوں نے فلاں کو آگے کیا ۔ اس نے پڑھا ۔ (یایھا الکافرون ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون) اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی ۔ (یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون “۔ (4 : 43) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اس وقت تک نماز کے قریب مت جاؤ جب تک تم نشے کی حالت میں ہو یہاں تک کہ تم جو کچھ پڑ تھے ہو اسے سمجھو “۔ ) میں سمجھتا ہوں کہ دور جاہلیت میں شراب نوشی کی کثرت اور وسیع استعمال کے ثبوت کے لئے اس سے زیادہ روایات کے بیان کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ روایات کافی ہیں ۔ شراب نوشی اور جوئے بازی کا رواج نہایت ہی وسیع تھا اور دور جاہلیت کی عادات وتقالید میں سے یہ دونوں عادتیں نہایت ہی ممتاز تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ ربانی نظام حیات نے اس ممتاز اور نہایت ہی گہری صفت اور عادت کا علاج کس طرح کیا اور اس مصیبت کا دفعیہ کس طرح ہوگیا جس کے ہوتے ہوئے کوئی سنجیدہ استوار ‘ صالح اور دانشمند معاشرہ اٹھ ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس قدیم اور بری لت کو اسلام نے کس طرح یکلخت ختم کردیا جس کے بعد پہلو قومی اجتماعی عادات سے وابستہ تھے اور حض پہلو قومی وذاتی اقتصادیات سے وابستہ تھے ۔ قرآن کریم نے اس بری عادت کو صرف چند آیات کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ نہایت نرمی ‘ نہایت ہمدردی کے ساتھ اور نہایت ہی تدریج کے ساتھ ۔ بغیر اس کے کہ کوئی جنگ لڑی جائے ‘ بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی معرکہ آرائی کرنا پڑے اور بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی معرکہ آرائی کرنا پڑے اور بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی بڑی قربانی دی جائے یا خونریزی کی جائے ۔ اس سلسلے میں اگر کوئی قربانی دی گئی تو صرف یہ تھی کہ شراب کے مٹکے اور جام وسبو ٹوٹ گئے یا شراب کے وہ گھونٹ جو پینے والوں کے منہ میں تھے اور انہوں نے تھوک دیئے تھے اور کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ۔ یاد رہے کہ بعض لوگوں نے جب آیت تحریم شراب کے بارے میں سنا اور وہ شراب پی رہے تھے انہوں نے وہ گھونٹ بھی نہ پیا جو ان کے منہ میں تھا ۔ تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔ مکہ جہاں اسلامی حکومت نہ تھی ‘ اور نہ مسلمانوں کو اقتدار حاصل تھا ‘ وہاں شراب کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کی طرف ایک سرسری اشارہ کیا گیا تھا ۔ یہ اشارہ سیاق کلام کے اندر ضمنی طور پر کیا گیا تھا لیکن صرف اشارہ ہی تھا مثلا سورت نحل میں آیا تھا ۔ (آیت) ” ومن ثمرت النخیل والاعناب تتخذون منہ سکرا ورزقا حسنا “۔ (16 : 76) ” اور پھلوں میں سے کھجوریں اور انگور جس سے تم شراب اور رزق حسن حاصل کرتے ہو ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو ‘ جو وہ کھجوروں اور انگوروں سے بناتے تھے ‘ رزق حسن کے بالمقابل بیان کیا ۔ گویا شراب رزق حسن نہ تھی ‘ یا رزق حسن سے کوئی علیحدہ شے تھی ۔ یہ دور سے ایک اشارہ تھا ۔ اور اس کے ذریعہ ایک بات ایک نوخیز مسلمان کے شعور کے اندر غیر محسوس طور پر بٹھا دی گئی ۔ لیکن شراب نوشی کی عادت ایک انفرادی بدعملی نہ تھی بلکہ یہ تو اس سے زیادہ برا اور گہرا معاشرتی جرم تھا اور عادت بد تھی جبکہ اس کا تعلق اقتصادی امور سے بھی تھا ۔ اس لئے اس کا قلع قمع ایسے بالواسطہ اشارات کے ذریعے نہ کیا جاسکتا تھا ۔ مدینہ طیبہ میں جہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی اور اسلام کی پشت پر اقتدار بھی تھا تب بھی اسلام نے شراب کی حرمت کے احکام محض قانون کے ڈنڈے کے ذریعے بشکل فرمان حکومت نافذ نہیں کیے ۔ اس میں سب سے زیادہ کام قرآن کی قوت تاثیر نے کیا یہ کاروائی نہایت ہی نرمی اور محبت کے انداز میں شروع کی گئی اور انسانی نفسیات کے گہرے مطالعے کی اساس پر شروع کی گئی ۔ نیز اجتماعی امور کے بعد بصیرت افروز حقیقی تقاضوں کے مطابق کی گئی ۔ سب سے پہلے اس سلسلے میں سورة بقرہ کی یہ آیت آتی ہے : (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما “۔ (2 : 219) ” آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں ؟ کہہ دیں ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں لیکن ان کا گناہ انکے نفع سے بہت بڑا ہے) یہ ایک سوال کا جواب تھا جس کے ذریعے شراب اور جوئے کے خلاف مسلمانوں کے ضمیر اور شعور کو بیدار کرنا شروع کیا گیا ۔ یہ پہلی گھنٹی تھی جو اسلامی معاشرے میں شراب نوشی کے خلاف سنی گئی ۔ اسلامی احساس اور اسلامی شعور کے اندر ایک ارتعاش پیدا ہوا ۔ اور اسلامی فہم اور ادراک کو شراب نوشی اور جوئے کے خلاف بیدار کیا گیا ۔ یہ بتایا گیا کہ اسلام میں حلت اور حرمت کا مدار گناہ اور ثواب پر ہے ۔ اگر اس کے منافع کے مقابلے میں نقصان بہت زیادہ ہے اور گناہ بہت بڑا ہے تو اب راستہ یہی ہے کہ اسے حرام ہونا چاہئے ۔ لیکن یہ معاملہ نہایت ہی گہرا تھا ‘ حضرت عمر ؓ جیسے لوگ شراب کے عادی تھے ‘ اس آیت کے نزول پر آپ نے دعا کی : ” اے اللہ شراب کے بارے میں ہمیں کافی اور شافی بیان دے دے ۔ “ یہ دعا حضرت عمر ؓ کی طرف سے تھی اور اس سے اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ شراب نوشی عربوں کے رگ وپے میں کس قدر سرایت کرگئی تھی ۔ اس کے بعد وہ واقعات پیش آئے جن کا ذکر ہم نے اوپر کردیا ہے اور اس نے بعد میں یہ آیت آئی ۔ (یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری “۔ (4 : 43) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اس وقت تک نماز کے قریب مت جاؤ جب تک تم نشے کی حالت میں ہو) اور یہ بصیرت افروز اور حکیمانہ نظام زندگی اپنا کام کرتا رہا ‘ نہایت ہی نرمی کے ساتھ ۔ یہ ایک درمیانی مرحلہ تھا ‘ پہلے تو اس فعل شنیع کے خلاف نفرت پیدا کی گئی کہ یہ ایک گناہ اور ناپاک عمل ہے ‘ لیکن اب ایک محدود پابندی عائد کردی گی اور نشے کے اوقات کے اندر تحدید کردی گئی ۔ اس لئے کہ نماز کے اوقات ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہوتے ہیں ۔ اور یہ پورے دن پر پھیلے ہوئے ہیں اور دو نمازوں کے درمیان اس قدر طویل وقفہ نہیں ہوتا کہ کوئی شراب پئے اور اس کا نشہ ٹوٹ جائے اور وہ نماز باجماعت پڑھ سکے اور اس حال میں واپس آجائے کہ وہ نماز میں جو کچھ پڑھے اسے اس کا اچھی طرح علم و شعور ہو ۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ شراب نوشی کے لئے خاص اوقات ہوتے ہیں یعنی صبح وشام ۔ صبح ہوتے ہی نماز کا وقت ہوتا ہے اور شام کے وقت بھی تین نمازوں کے اوقات جمع ہوتے ہیں ۔ اس لئے ایک مسلمان کے ضمیر کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ شراب پئے یا نماز پڑھے ۔ اور نماز چونکہ ان کے نزدیک دین کا مرکزی ستون بن چکی تھی ‘ اس لئے وہ نماز کے حق میں ہی فیصلہ کرتے تھے لیکن اس کے باوجود حضرت عمر ؓ نے شافی و کافی بیان کی ضرورت محسوس کی ۔ وقت اسی طرح آگے بڑھتا رہا ۔ کچھ مزید واقعات در پیش ہوئے اور وقت آگیا کہ شراب نوشی کو قطعا حرام کردیا جائے ۔ یہ قرآنی نظام حیات کے عین مطابق کیا گیا اور نہایت ہی موزوں موقعہ پر شراب نوشی کی عادت پر یہ فیصلہ کن وار کیا گیا ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (90) انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فھل انتم منتھون “۔ (91) (5 : 90۔ 91) (بےشک شراب اور جوا اور آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے اجتناب کرو ‘ امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ‘ شیطان صرف تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ۔ کیا تم اس سے باز رہو گے ؟ ) (آیت) ” وعد اللہ الذین امنوا وعملوا الصلحت لھم مغفرۃ واجر عظیم “۔ (5 : 9) ” تمام مسلمان اس چیزوں سے باز آگئے ۔ شراب کے مشکزے انڈیل دیئے گئے اور ہر جگہ شراب کے خم توڑ دیئے گئے ۔ یہ کام صرف آیت سنتے ہی عمل میں لایا گیا اور جن لوگوں کے منہ میں شراب کے گھونٹ تھے وہ بھی انہوں نے تھوک دیئے ‘ عین اس وقت جب وہ شراب پی رہے تھے اور ان کے منہ کے ساتھ پیالہ تھا ۔ یہ تھی قرآن کریم کی فتح و کامرانی اور اسلامی نظام زندگی کی کامیابی ۔ نہ کوئی جبر ہوا اور نہ کوئی تشدد۔ لیکن یہ کام کیونکر ہوگیا ؟ یہ معجزہ کس طرح رونما ہوا ‘ جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ کے اندر نہیں ملتی ۔ قانون سازی ‘ ضابطہ بندی اور حکومت کے اقدامات کے اندر اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ کسی زمانے میں بھی اور کسی دور میں بھی ۔ بہرحال یہ معجزہ رونما ہوا ‘ اس لئے کہ ربانی نظام حیات نے انسانی نفس کا علاج کیا ‘ اپنے مخصوص انداز میں ‘ نفس انسانی پر ربانی اقتدار نافذ کیا ۔ اس پر خدا ترسی کا نگران بٹھایا اور اللہ کا خوف ایک ایسا خوف ہوتا ہے کہ جس کے دل میں بیٹھ گیا وہ کسی وقت کسی جگہ ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہوسکتا ۔ یہ ربانی نظام تربیت انسان کو بحیثیت مجموعی لیتا ہے اور اس کی تربیت نہایت ہی فطری انداز میں کرتا ہے ۔ شراب نوشی کی حرمت کی وجہ سے ان کی اجتماعی زندگی کے اندر جو خلا پیدا ہوگیا تھا ‘ اسلام نے اس خلا کو بعض اونچے مقاصد عطا کر کے پر کردیا اور ان کو اپنے خالی اوقات میں شراب کی مدہوشی اور جاہلانہ فخر ومباہات کے اظہار کے مواقع ہی نہ چھوڑے اور محافل میں کبر و غرور کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہنے دی ۔ وہ بلند مقاصد کیا تھے ؟ مثلا یہ کہ اسلام نے اس گم کردہ راہ اور دھتکاری ہوئی انسانیت کو جاہلیت کے بےآب وگیاہ صحراء اور اس کی تپتی ہوئی دوپہر اور اس کے تاریک ترین اندھیروں اور اس کی حقارت آمیز غلامی اور تنگ راہوں کی گھٹن سے نکالا اور اسے اسلام کے تروتازہ گلستان ‘ اس کی گھنی چھاؤں اس کے روشن دنوں ‘ اور اس کی عزت مآب آزادیوں اور دنیا اور آخرت کی وسعتوں کے اندر داخل کردیا ۔ اسلام نے عربوں کی زندگی کے اس خلاء کو تروتازہ ایمان سے بھر دیا ۔ عربوں کے دل میں ایک تازہ اور نوخیز شعور پیدا ہوا جو انکے لئے نہایت ہی پیارا تھا ۔ اس سے انہیں شراب نوشی کی آغوش میں پناہ لینے کی ضرورت ہی نہ رہی کہ وہ جھوٹے تخیلات میں گم ہو کر سکون پائیں ‘ ان کے قلوب مشعل ایمان کے ساتھ ملاء اعلی کی روشن دنیا کی طرف محو پرواز ہوں اور اللہ جل شانہ کے نور میں اور اللہ کے وصال اور اس کی معرفت میں زندگی بسر کر رہے ہوں ۔ وصال باری تعالیٰ سے لذت آشنا ہوں اور اس لذت کی وجہ سے وہ اپنے منہ کے اندر موجود جرعہ شراب کو بھی زمین پر پھینک رہے ہوں ۔ اور اس کے نشے اور مزے کو نظر انداز کر رہے ہوں ‘ اور آخر کار اس کے جوش اور اس کے سکون دونوں سے نفرت کر رہے ہوں۔ اسلام نے ایک مسلمان کی شخصیت کو جاہلیت کی دبیز تہوں سے نکال دیا ۔ اس کے لئے ایسی راہیں کھول دیں جو اسلام کی کنجی کے بغیر کھل ہی نہ سکتی تھیں ۔ وہ اس کے میلانات اور رجحانات کے ساتھ چلا اور اسلام کے طریقوں اور راہوں پر چل کر پسندیدہ روشن اختیار کی ۔ نور پھیلاتے ہوئے ‘ حیات نو عطا کرتے ہوئے ‘ نظافت اور پاکیزگی پھیلاتے ہوئے ‘ ہمت اور بیداری پیدا کرتے ہوئے ‘ بھلائی کے لئے آگے بڑھتے ہوئے اور اللہ کے ساتھ عہد اور شرائط ایمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔ شراب جوئے کی طرح ہے اور یہ دونوں لہو ولعب کے جدید مظاہر ومشاہد کی طرح ہیں ۔ مثلا جمناسٹک کے جنونی طور طریقے ‘ اور ان کے سٹیڈیم اور دوسرے اخراجات ‘ دوڑوں کے مقابلے ‘ سینما اور مرد وزن کے درمیان اختلاط ‘ بیلوں کے مقابلے اور لہو ولعب کے وہ تمام نئے انداز جو جدید جاہلیت کے لوازمات ہیں ۔ جسے صنعتی جاہلیت کہنا زیادہ مناسب ہے ۔ یہ تمام مظاہر دراصل روحانی خلا کے مظاہر ہیں ۔ یہ ایمان کی کمی کو پورا کرنے کی سعی لاحاصل ہے ۔ بلند مقاصد اور بلند نصب العین کو پیش نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہے ۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ تہذیب جدید ایک مفلس اور تہی دامن تہذیب ہے اور اس جدید کلچر کے اندر انسان کی تمام ضروریات کا سازوسامان موجود نہیں ہے اور یہ روحانی خلا اور یہ بلند مقاصد کی تہی دامنی ہی ہے جس کی وجہ سے لوگ جوئے اور شراب کی گود میں پناہ لیتے ہیں ۔ اس خلا کو جوئے ‘ شراب اور دوسرے لہو ولعب سے بھرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ مغربی کلچر اس خلا کو ہر قسم کے لہو ولعب اور غیر فطری سرگرمیوں سے بھر رہا ہے ۔ جیسا کہ اوپر ہم نے تفصیلا بتایا ۔ یہ دو امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے انسان بیشمار نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتا ہے اور اخلاقی بےراہ روی اختیار کرتا ہے ۔ یہ چند الفاظ تھے جن کے نتیجے میں شراب کے قلع قمع کرنے کا معجزہ صادر ہوا ۔ یہ تو ایک نظام حیات تھا ‘ یہ ایک منہاج تھا اور یہ منہاج ان کلمات کے اندر بیان ہوا تھا اور یہ منہاج اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا تھا ۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا نہ تھا اور یہ وہ نکتہ امتیاز ہے ۔ ان نظامہائے زندگی کے درمیان جو لوگوں کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں اور اس نظام کے درمیان جو اللہ کا بنایا ہوا ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسانی نظام کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہ محض کلام اور طریقہ اظہار مقصد کا مسئلہ نہیں ہے ۔ اظہار مافی الضمیر کے لئے تو بیشمار اسلوب ہیں ۔ بعض فلاسفہ بہت ہی اچھا لکھتے ہیں ٗ شعرا میں سے فلاں بہت ہی اچھا شعر کہتا ہے یا مفکرین میں سے فلاں بہت ہی اعلی درجے کا قلمکار ہے ۔ یہ فلاں بادشاہ ادب ہے اور ایسا لکھتا ہے کہ وہ صاحب طرز ہے ‘ صاحب نظریات ہے اور فلسفے کی ایک نئی شاخ کا بانی ہے ۔ لیکن لوگوں کے ضمیر پر اس کے الفاظ کا اثر نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کلام پر اللہ کی جانب سے کوئی قوت القا نہیں ہوتی ۔ (آیت ) ” ما انزل اللہ بہ من سلطن “۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے جو اسے قوت اور گرفت عطا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر انسانی منہاج حیات ضعیف ‘ جہالت پر مبنی ‘ نقائص سے بھرپور اور بنانے والے انسان کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ اس حقیقت کو وہ لوگ کب پاسکیں گے جو لوگوں کی زندگیوں کے لئے خود نظام تجویز کرتے ہیں جو اللہ علیم وخبیر کے نظام سے بالکل علیحدہ ہوتا ہے ۔ اور وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جو حکیم وخبیر نے نہیں بنائے اور وہ لوگوں کے لئے ایسے نشانات نصب کرتے ہیں جو خالق ارض وسما نے نصب نہیں کئے ۔ معلوم نہیں کب یہ لوگ عقل کے ناخن لیں گے ۔ وہ اپنے اس کبر و غرور سے کب باز آئیں گے ؟ اب ہم اس آیت کریمہ کے متن کی طرف آتے ہیں : (آیت) ”۔ یایھا الذین امنوا لا تقرابو الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون ولا جنبا الا عابری حتی تغتسلوا “۔ (4 : 43) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہئے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو ‘ اور اسی طرح جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو ‘ الا یہ کہ راستے سے گزرتے ہو “۔ آیت میں اہل ایمان کو جس طرح شراب نوشی کی حالت میں نماز سے روکا گیا ہے ‘ اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز سے روکا گیا ہے الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو ۔ جنابت کی حالت میں غسل ضروری ہے ۔ لفظ (عابری سبیل) کے مفہوم میں مختلف اقوال ہیں ۔ اسی طرح نماز کے قریب مت جاؤ کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہیں جانا چاہئے نہ مسجد میں ٹھہرنا چاہئے یہاں تک کہ ایک شخص غسل کرے ۔ الا یہ کہ کوئی مسجد سے محض گزر رہا ہو ۔ بعض لوگوں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے ‘ اور ان کے گھر کے آنے اور جانے کا راستہ مسجد ہی سے ہو کر گزرتا تھا ‘ ایسے لوگوں کو مسجد سے حالت جنابت میں صرف گزرنے کی اجازت دے دی گئی تھی مگر ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نماز تو بہرحال ممنوع تھی ‘ جب تک غسل نہ کرتے ۔ ایک قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد نماز ہے ۔ یعنی یہ ممانعت کی گئی ہے کہ حالت جنابت میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو ‘ ہاں اگر تم مسافر ہو تو پھر بغیر غسل کے تم مسجد میں جا کر نماز ادا کرسکتے ہو مگر تیمم کے بعد ‘ جو غسل کے قائم مقام ہوگا جس طرح پانی نہ ہونے کی شکل میں وضو کی جگہ تیمم جائز ہوتا ہے ۔ پہلا قول زیادہ ظاہر اور قریب الفہم ہے۔ اس لئے کہ دوسرے قول کے مطابق جو تفسیر بیان ہوئی اس میں بیان شدہ صورت کو خود اگلی آیت میں واضح کیا گیا ہے ۔ اگر (عابری سبیل) کی تفسیر یہ کی جائے کہ اس سے مراد مسافر ہیں تو اس صورت میں تکرار لازم ہوگا اور ایک ہی آیت میں تکرار بلاضرورت ہوگا ۔ (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر او جآء احد منکم من الغائط اولمستم النسآء فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم ان اللہ کان عفوا غفورا (4 : 43) ” اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو ‘ یا سفر میں ہو ‘ یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے ‘ یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو ‘ اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو ‘ بیشک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے ۔ ‘ اس آیت میں مسافر کی حالت کے بارے میں احکام بیان ہوئے ہیں کہ جب کسی کو حاجت غسل لاحق ہوجائے ‘ یا وضو کی ضرورت لاحق ہوجائے ‘ اور وہ نماز ادا کرنا چاہتا ہو ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کوئی مریض ہو ‘ اور اسے وضو کی یا غسل کی ضرورت پیش آجائے یا کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو اور اسے وضو کی ضرورت ہو ‘ یا اس نے عورتوں سے لمس کیا ہو ۔۔۔۔۔ ان سب صورتوں میں اگر پانی نہ ملے تو وہ پاک مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھے ۔ الغائط کا مفہوم ہے ۔ ‘ نشیبی جگہ ۔ چونکہ دیہاتی لوگ قضائے حاجت کے لئے نشیبی جگہ کو جاتے ہیں ‘ اس لئے فعل قضائے حاجت کی تعبیر مکان فعل سے کردی گئی ۔ اور (آیت) ” لمستم النسآئ “۔ کی تفسیر میں بھی کئی اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے ‘ جس کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے ۔ دوسرا قولیہ ہے کہ اس سے حقیقی لمس مراد ہے یعنی چھونا ۔ یعنی مرد کے جسم کا کوئی حصہ عورت کے جسم سے مس کرے ۔ بعض فقہی مذاہب کے مطابق اس سے وضو لازم آتا ہے ۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ ناقض وضو نہیں ہے ‘ اس کی تفصیلات تو کتب فقہ میں پائی جاتی ہیں ۔ ہم یہاں اجمالا بعض نتائج کا ذکر کرتے ہیں ۔ (الف) لمس سے مطلقا وضو واجب ہے ۔ ّ (ب) لمس سے اس وقت وضو واجب ہوگا جس لامس کے جسم میں اشتہاء پیدا ہوجائے اور اس طرح یہ بھی شرط ہے کہ جس عورت کے ساتھ لمس ہو وہ بھی شہوت انگیزی کے قابل ہو۔ (ج) لمس سے وضو اس وقت واجب ہوگا جب لامس یہ محسوس کرے کہ اس لمس کی وجہ سے اس کا نفس متحرک ہوگیا ہے ۔ (د) لمس سے مطلقا وضو واجب نہیں ہے اور نہ ہی بیوی سے معانقہ کرنے یا بوسہ لینے سے وضو واجب ہوگا ۔ ان اقوال میں سے ہر قول کے قائلین نے نبی ﷺ کے اقوال اور افعال سے استدلال کیا ہے جس طرح فقہی مسائل کے استدلال میں بالعموم کیا جاتا ہے ۔ میرے خیال میں (آیت) ” لمستم النسآء “۔ سے بطور کنایہ وہ فعل مراد ہے جس سے غسل لازم آتا ہے اس لئے ان اختلاف کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں ہے جو وضو کے سلسلے میں کتب فقہ میں مذکور ہیں ۔ ان تمام حالات میں ‘ چاہے غسل واجب ہو یا وضو واجب ہو اور پانی دستیاب ہو یا پانی دستیاب نہ ہو لیکن اس کا استعمال موجب مضرت ہو اور انسان کے لئے اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو وضو کرنے یا غسل کرنے کے بجائے انسان کے لئے تیمم جائز ہے ۔ اور تیمم کا ذکر آیت کے الفاظ (آیت) ” فتیمموا صعیدا طیبا “۔ (4 : 43) (پس پاک مٹی سے تیمم کرو) میں آتا ہے ۔ تیمم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں یعنی پاک مٹی کا ارادہ کرلو ۔ صعید ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو مٹی کی قسم سے ہو مثلا مٹی ، پتھر ‘ دیوار ‘ اگرچہ مٹی سواری کی پشت پر ہو ‘ یا فرش اور دوسری چیزوں پر جن پر غبار ہو اور جب ہاتھ مارا جائے تو غبار اڑ رہا ہو۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے پاک مٹی کو تھپکی دے ‘ پھر ہاتھوں کو جھاڑ دے اور چہرے پر مل دے ۔ پھر دوسری تھپکی دے ‘ ہاتھوں کو جھاڑ دے اور ان کو دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کر دے ۔ اور یا صرف ایک ہی تھپکی سے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو مسح کر دے ۔ (مطابق اختلاف فقہائ) اس سے زیادہ مزید فقہی اختلافات کے لئے یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تیمم شروع ہی لوگوں کی آسانی کے لئے ہوا ہے اور یہ آسانی پیدا کرنے کی واضح مثال ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان عفوا غفورا “۔ (4 : 43) (بےشک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور معاف کرنے والا ہے) اس اختتامیہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نرمی کرنے والا ہے ۔ وہ ضعیف پر رحمدلی فرماتا ہے ‘ قصوروں کو معاف فرماتا ہے ‘ اور کوتاہیوں کو بخش دیتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس آیت پر کلام ختم کریں یہاں چند امور پر نظر دوڑانا ضروری ہے ۔ آیت نہایت ہی مختصر ہے لیکن اس پر غور ضروری ہے ۔ مثلا تیمم کی حکمت پر غور ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین میں کس قدر نرمی فرمائی ہے ۔ بعض لوگ اسلامی شریعت کی حکمت اور اسلامی عبادات کے اسرار پر جب کلام کرتے ہیں تو وہ اس قدر آگے چلے جاتے ہیں اور احکام کے علل اور حکم بیان کرتے وقت یہ تاثر دیتے ہی کہ گویا انہوں نے شریعت کے تمام رازوں کا استقصا کرلیا ہے اور اب ان احکام اور عبادات کے پیچھے مزید کسی حکمت کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے ۔ قرآنی آیات ‘ شرعی احکام اور اسلامی عبادات پر کلام کرنے کا یہ انداز نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے ۔ ہاں یہ اور بات کہ کسی شرعی حکم کی علت اور حکمت خود منصوص ہو اور اس کی صراحت خود شارع نے کردی ہو ۔ مناسب یہ ہے کہ ہم کہیں کہ یہ ہے وہ بات جسے ہم بطور حکمت حکم یا بطور علت حکم سمجھ سکے ہیں ۔ ایسے مزید اسرار بھی ہو سکتے ہیں کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان کو منکشف نہ کیا ۔ صرف اسی طرح ہم عقل انسانی کو اپنے صحیح مقام تک محدود رکھ سکتے ہیں شرعی نصوص کے حوالے سے بغیر افراط اور تفریط کے اور اپنے دائرے اور حدود کے اندر رہتے ہوئے ۔ میں یہ کہوں گا کہ بعض اہل اسلام لوگوں کے سامنے آیات و احادیث پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی متعین حکمت بھی بیان کرتے ہیں ‘ ان لوگوں میں بعض مخلصین بھی شامل ہیں یہ حکمت انسانی علم یا دور جدید کے سائنسی اکتشافات پر مبنی ہوتی ہے ۔ یہ بات بذات خود کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس حکمت کو اپنے حدود کے اندر رہنا چاہئے ۔ وہ حدود یہ ہیں جس کی طرف گزشتہ سطور میں ہم نے اشارہ کیا ہے ۔ اکثر اوقات اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ یہ صفائی کا ایک ذریعہ ہے ۔ یہ مقصد بھی پیش نظر ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ وضو سے مقصود صرف صفائی ہی ہے اور کچھ نہیں تو یہ نہج کلام غیر صحت مندانہ ہوگا اور ویسے بھی یہ کوئی صحیح طرز استدلال نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اب ایسا وقت بھی آگیا ہے کہ بعض نام نہاد دانشور یہ کہنے لگے ہیں کہ صفائی حاصل کرنے کا یہ نہایت ہی ابتدائی تصور اور طریقہ تھا ‘ اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آج کل صحت وصفائی کے دوسرے ذرائع بہت ہی عام ہیں ۔ آج لوگ صفائی وصحت کو اپنے روز مرہ کے پر ورگرام کا حصہ بنا رہے ہیں ۔ اگر وضو کا مقصد صرف حصول صفائی ہے تو اب وضو کی ضرورت کیا ہے بلکہ اب تو نماز کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اکثر لوگ نماز کی حکمت کے سلسلے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ورزش کی حرکات ہیں جس سے پورا جسم حرکت کرتا ہے بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کہ نماز کی وجہ سے انسان کی زندگی منظم ہوجاتی ہے اور وہ ایک منظم زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے کیوں کہ نماز مقررہ وقت پر ادا ہوتی ہے اور اس کے اندر مقررہ انداز میں رکوع اور سجود ہوتے ہیں ۔ اس میں صفیں اور امامت ہوتی ہے ۔ یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ نماز کے ذریعے انسان خدا تک پہنچتا ہے اور اللہ کے ساتھ راز ونیاز کی باتیں ہوتی ہیں ۔ یہ تمام حکمتیں مقصود ہو سکتی ہیں لیکن ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کونسی حکمت مراد ہے یا یہی حکمت مقصود ہے ؟ اگر ہم کوئی بات متعین کرکے کہیں تو یہ انداز غیر صحت مندانہ ہوگا اس لئے کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ نماز کی ورزشی حرکات کی اب کیا ضرورت ہے ۔ اب تو ورزش ایک فن بن چکی ہے اور ہر شخص اس پر عمل کرسکتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب محض زندگی کو منظم کرنے کے لئے ہمیں نماز کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ نماز سے بھی زیادہ فوجی نظام کے ذریعے زندگی کو منظم اور باقاعدہ بنایا جاسکتا ہے ۔ بعض لوگ تو ایسے پیدا ہوگئے جنہوں نے یہ قرار دیا ہے کہ تعلق باللہ کے لئے بھی نماز کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اتصال باللہ بذریعہ تنہائی اور مراقبہ بھی ممکن ہے اور اب نماز جیسی ورزشی حرکات کی ضرورت نہیں ہے ‘ اس لئے کہ جسمانی حرکات بعض اوقات روحانی تصور اور مراقبے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ۔ ان خطوط پر اگر ہم ہر عبادت اور ہر حکم کے اسرار و رموز متعین کرتے جائیں اور ہر حکم کی علت اپنے فہم وادراک سے متعین کرنے لگیں یا جدید سائنسی اکتشافات کے اندر حکمتوں کی تلاش کریں اور پھر یہ اعلان کریں کہ یہی وہ حکمت ہے جو اس حکم کے اندر پنہاں ہے یا اس حکم کا یہی سبب اور علت ہے تو یقینا ہم صحت مند لائن سے ہٹ جائیں گے اور ان لوگوں کے لئے راہ کھول دیں گے جو نام نہاد دانشور ہیں ‘ اور پھر خود ہماری یہ قرار دادیں اور فیصلے ‘ ضروری نہیں ہے کہ درست ہوں ۔ ان میں غلطی بھی ممکن ہے خصوصا جب ہم ان حکمتوں کو سائنسی اکتشافات سے مربوط کردیں ‘ اس لئے کہ سائنسی علوم ونظریات آئے دن بدلتے رہتے ہیں اور ہر وقت یہ نظریات تصحیح اور تبدیلی کے قابل ہوتے ہیں اور ان میں ترمیم وتنسیخ کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔ یہاں زیر بحث موضوع تیمم ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو اور غسل کی حکمت صرف نظافت ہی نہیں ہے ۔ اگر یہی بات ہوتی تو ان دونوں کی جگہ تیمم نہ لیتا ۔ کیونکہ اس سے کوئی صفائی حاصل نہیں ہوتی ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم نظافت کے علاوہ بھی وضو اور غسل کی کوئی حکمت تلاش کریں جو وضو اور غسل کی طرح تیمم میں بھی ہو۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم خود اس غلطی کا ارتکاب کریں جس کی نشاندہی ہم خود کر رہے ہیں ۔ لیکن ہم یہ کہیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ حکمت یہ ہو کہ انسان اپنے آپ کو نفسیاتی اعتبار سے نماز کے لئے تیار سمجھے ۔ اور یہ تیاری کسی سنگل پر مبنی ہو اور اس سگنل کے ذریعہ انسان اپنی روز مرہ کی حرکات و سکنات کو ترک کرکے اللہ کے دربار میں حاضری اور ملاقات کی فضا میں داخل ہوجائے اور وضو ‘ غسل اور تیمم اس داخلہ کے لئے سگنل ہوں اور اگر وضو اور غسل نہ ہو تو تیمم ہی سگنل ہوجائے ۔ اصل حقیقت تو اللہ تعالیٰ کے کامل اور ہر چیز پر حاوی علم ہی میں ہے ‘ جو انسان کی اندورنی پوشیدہ باتوں پر بھی محیط ہے ۔ انسان کے طور طریقوں اور خفیہ راہوں سے وہی باخبر ہے ‘ جو لطیف وخبیر ہے ۔ ہمارا فرض تو یہ ہے کہ ہم اللہ کے احکام کی اطاعت نہایت ہی ادب واحترام سے کریں جو نہایت ہی برتر اور بالا ہے اور عظیم اور بزرگ ہے ۔ یہاں ہمارے لئے دوسرا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اسلام ہر قسم کے عذر اور رکاوٹ کو دور کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ تیمم اس سلسلے کی ایک واضح مثال ہے کہ وضو اور غسل کی جگہ اس کی اجازت دی گئی جبکہ مشکلات ہوں ۔ یہ ایک واضح مثال ہے جس سے معلوم ہوتا کہ اسلام کہ ہر معاملے میں آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ مثلا اگر پانی نہ ہو یا بیماری ہو یا پانی کم ہو اور پینے کی ضروریات سے زیادہ نہ ہو ۔ سفر میں بعض اقوال کے مطابق پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم جائز ہے ۔ یہ باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے اور اسی سورت میں صلوۃ الخوف کی کیفیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ‘ خصوصا میدان جنگ میں ‘ یہ بات بڑی سہولت سے معلوم ہوجاتی ہے کہ اسلامی نظام حیات نماز کو کس قدر اہمیت دیتا ہے ۔ مسلمان نماز سے کسی صورت میں بھی اور کسی وجہ سے بھی جدا نہیں ہو سکتا ۔ مرض میں بھی نماز کی ادائیگی کے لئے یہ سہولت پیدا کی گئی ہے کہ بیٹھ کر پڑھا جائے ۔ بصورت معذوری ایک پہلو پر لیٹ کر بھی پڑھی جاسکتی ہے اور اگر حرکت ممکن ہی نہ ہو تو آنکھوں کے اشارے سے بھی نماز ادا ہو سکتی ہے ۔ یہ خدا اور بندے کے درمیان ایک رابطہ ہے ۔ ایک ایسا رابطہ کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ کسی طرح بھی ایک مومن کا خدا کے ساتھ یہ رابطہ ٹوٹ جائے اس لئے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ خود بندے کو اس رابطے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تو دونوں جہانوں سے مستغنی ہے ۔ لوگوں کی نماز و عبادت سے اس کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ فائدہ اگر ہے تو بندے کا ہے کہ وہ نماز سے سلجھ جاتا ہے ۔ یہ بھی بندوں کا فائدہ ہے کہ وہ اللہ سے رابطہ قائم کرلیں اور اپنی مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں ۔ ان کو دلی خوشی نصیب ہو ‘ ان کے جسم اور شخصیت میں نورانیت پیدا ہو ‘ ان کو یہ شعور اور احساس ہو کہ وہ اللہ کی حفاظت میں ہیں ‘ اس کے قریب ہیں ‘ اس کی نگہبانی میں ہیں اور وہ ایسی راہ پر ہیں جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی فطرت کا سبب سے زیادہ علم ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بھی علم ہے کہ ان کے لئے اور ان کی فطرت کے لئے کیا کیا مفید ہے اور کیا کیا غیر مفید ہے ؟ اس لئے کہ وہ خالق اور صانع ہے اور اپنی مصنوعات اور مخلوقات سے وہ اور لوگوں کے مقابلے میں زیادہ خبر دار ہے ۔ وہ نہایت ہی باریک بین اور بصیر ہے ۔ اس آیت کی بعض دیگر تعبیرات میں بھی ہمارے لئے ایک سبق ہے ۔ اگرچہ یہ نہایت ہی مختصر آیت ہے لیکن اس میں بہترین انداز تعبیر کے ساتھ معانی کا سیل رواں نظر آتا ہے قضائے حاجت کے عمل کے لئے (آیت) ” او جآء احدمنکم من الغائط “۔ (4 : 43) (تم میں سے کوئی نشیبی جگہ سے آیا ہو) کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ نہ کہا کہ تم نے یہ فعل کیا ہو ‘ صرف یہ کہا کہ تم نشیبی جگہ سے واپس آئے ہو ۔ اشارہ وکنایہ اس طرف ہے کہ تم قضائے حاجت سے آئے ہو ۔ اس میں بھی مخاطبوں سے نہیں کہا کہ تم آئے ہو بلکہ تم میں سے کوئی شخص آیا ہو (آیت) ” او جآء احدمنکم من الغائط “۔ (4 : 43) کہا ہے ۔ یہ نہیں کہا (جئتم من الغآئط) قرآن کے الفاظ زیادہ ادیبانہ اور مہذبانہ ہیں اور ان میں کنایہ لطیف ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو اپنے درمیان اسی طرح کی سلجھی ہوئی گفتگو کرنا چاہئے ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
Top