Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقْرَبُوا
: نہ نزدیک جاؤ
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
سُكٰرٰى
: نشہ
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَعْلَمُوْا
: سمجھنے لگو
مَا
: جو
تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے ہو
وَلَا
: اور نہ
جُنُبًا
: غسل کی حالت میں
اِلَّا
: سوائے
عَابِرِيْ سَبِيْلٍ
: حالتِ سفر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَغْتَسِلُوْا
: تم غسل کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: مریض
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر۔ میں
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ جَآءَ
: یا آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں
مِّنَ
: سے
الْغَآئِطِ
: جائے حاجت
اَوْ
: یا
لٰمَسْتُمُ
: تم پاس گئے
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر تم نے نہ پایا
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: مسح کرلو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَفُوًّا
: معاف کرنیوالا
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے
بتدریج حرمت شراب اور پس منظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور ساتھ ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے اور ساتھ جنبی شخص جسے نہانے کی حاجت کو محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو جائز ہے نشے کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے کا حکم شراب کی حرمت سے پہلے تھا جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے جو ہم نے سورة بقرہ کی (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ) 2۔ البقرۃ :219) کی تفسیر میں بیان کی ہے کہ نبی ﷺ نے جب وہ آیت حضرت عمر ؓ کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے دعا مانگی کہ اے اللہ شراب کے بارے میں اور صاف صاف بیان نازل فرما پھر نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے وقت اس کا پینا لوگوں نے چھوڑ دیا اسے سن کر بھی جناب فاروق ؓ نے یہی دعا مانگی تو (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90 اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ 91) 5۔ المائدہ :9091) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے بچنے کا حکم صاف موجود ہے اسے سن کر فاروق اعظم ؓ نے فرمایا ہم باز آئے۔ اسی روایت کی ایک سند میں ہے کہ جب سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ہوئی اس قوت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے، ابن ماجہ شریف میں ہے حضرت سعد ؓ فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، ایک انصاری نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہوگئے پھر آپس میں فخر جتانے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر حضرت سعد کو ماری جس سے ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے حرام نہیں کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ نے دعوت کی سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہوگئے اتنے میں نماز کا وقت آگیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورة (آیت قل یا ایھا الکافرون) میں اس طرح پڑھا (آیت ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون) اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ حضرت عبدالرحمن اور تیسرے ایک اور صاحب نے شراب پی اور حضرت عبدالرحمن نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قرأت خلط ملط کردی اس پر یہ آیت اتری۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیے تھا نہ پڑھ سکے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ایک روایت میں مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے امامت کرائی اور اس طرح پڑھا (آیت " قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین،) پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کردیا گیا حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے پس اس آیت سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا (ابن جریر) حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں اس کے نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے رک گئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے بالکل تائب ہوگئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہوئی حضرت ضحاک ؒ فرماتے ہیں اس سے شراب کا نشہ مراد نہیں بلکہ نیند کا خمار مراد ہے، امام ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ٹھیک یہی ہے کہ مراد اس سے شراب کا نشہ ہے اور یہاں خطاب ان سے کیا گیا ہے جو نشہ میں ہیں لیکن اتنے نشہ میں بھی نہیں کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے حکم میں ہے، بہت سے اصولی حضرات کا قول ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے نشہ والوں کی طرف نہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اس لئے کہ خطاب کا تکلیف کی سمجھنا شرط ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو الفاظ یہ ہیں کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے کہ نشے کی چیز کھاؤ پیو بھی نہیں اس لئے کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کرسکے حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے واللہ اعلم پس یہ حکم بھی اسی طرح ہوگا جس طرح یہ حکم ہے کہ ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے رہو کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام پر دم نکلے یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کرسکو جو تم کہہ رہے ہو یہ نشہ کی حد سے یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہوسکتا ہے، مسند احمد میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے جب تک کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے استغفار کرے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے۔ آداب مسجد اور مسائل تیمم پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک غسل نہ کرلے ہاں بطور گزر جانے کے مسجد میں گزرنا جائز ہے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے ہاں مسجد کے ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں بیٹھے نہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے ہیں بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے چناچہ حضور ﷺ نے اپنے آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے دروازے پڑتے ہیں سب کو بند کردو حضرت ابوبکر ؓ کا دروازہ رہنے دو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت ابوبکر ؓ ہوں گے تو انہیں ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے جانے کی ضرورت رہے گی تاکہ مسلمانوں کے اہم امور کا فیصلہ کرسکیں اس لئے آپ نے سب کے دروازے بند کرنے اور صدیق اکبر ؓ کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایت فرمائی، بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے حضرت ابوبکر ؓ کے حضرت علی ؓ کا نام ہے وہ بالکل غلط ہے صحیح یہی ہے جو صحیح میں ہے اس آیت سے اکثر ائمہ نے دلیل پکڑی ہے کہ جنبی شخص کو مسجد میں ٹھہرانا حرم ہے ہاں گزر جانا جائز ہے، اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی بعض کہتے ہیں ان دونوں کے گزرنا بھی جائز نہیں ممکن ہے مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے اگر اس بات کا خوف نہ ہو انکا گزرنا بھی جائز ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا کہ مسجد سے مجھے بوریا اٹھا دو تو ام المومنین نے عرض کیا حضور ﷺ میں حیض سے ہوں آپ نے فرمایا تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ مسجد میں آ جاسکتی ہے اور نفاس والی کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے کے جا آسکتی ہیں۔ ابو داؤد میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ میں حائض اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ امام ابو مسلم خطابی ؒ فرماتے ہیں اس حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے کیونکہ " افلت " اس کا راوی مجہول ہے۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے اس میں افلت کی وجہ معدوم ذہلی ہیں۔ پہلی حدیث بروایت حضرت عائشہ ؓ اور دوسری بروایت حضرت ام سلمہ ؓ ہے لیکن ٹھیک نام حضرت عائشہ ؓ کا ہی ہے۔ ایک اور حدیث ترمذی میں ہے جس میں ہے کہ اے علی اس مسجد میں جنبی ہونا میرے اور تیرے سوا کسی کو حلال نہیں یہ حدیث بالکل ضعیف ہیں واللہ اعلم۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی ؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے تو پانی کے ملنے تک پڑھ سکتا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے، حضرت مجاہد حسن حکم زید اور عبدالرحمن سے بھی اس کے مثل مروی ہے، عبداللہ بن کثیر ؒ فرماتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ یہ آیت سفر کے حکم میں ہے، اس حدیث سے بھی مسئلہ کی شہادت ہوسکتی ہے کہ حضور ﷺ بہتر ہے (سنن اور احمد) امام ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں اس سے مراد صرف گزر جانا ہے کیونکہ جس مسافر کو جنب کی حالت میں پانی نہ ملے اس کا حکم تو آگے صاف بیان ہوا ہے پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے تو پھر دوسرے جملہ میں اسے لوٹانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی پس معنی آیت کے اب یہ ہوئے کہ ایمان والو نماز کے لئے مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے لگو اسی طرح جنب کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے عابر کے معنی آنے جانے یعنی گزر جانے والے ہیں اس کا مصدر عبراً اور عبورًا آتا ہے جب کوئی نہر سے گزرے تو عرب کہتے ہیں عبرفلان النھر فلاں شخص نے نہر سے عبور کرلیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو عبرالاسفار کہتے ہیں۔ امام ابن جیریر جس قول کی تائید کرتے ہیں یہی قول جمہور کا ہے اور آیت سے ظاہر بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت نماز سے منع فرما رہا ہے جو مقصود نماز کے خلاف ہے اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے کو روکتا ہے جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے خلاف ہے واللہ اعلم۔ پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کرلو امام ابو حنیفہ، امام مالک اور شافعی اسی دلیل کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جنبی کو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے جب تک غسل نہ کرلے یا اگر پانی نہ ملے یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کرلے۔ حضرت امام احمدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنبی نے وضو کرلیا تو اسے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے چناچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے۔ حضرت عطا بن یسار ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے اور وضو کر کے مسجد میں بیٹھے رہتے واللہ اعلم۔ پھر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے کیونکہ آیت میں عموم ہے حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں ایک انصاری بیمار تھے نہ تو کھڑے ہو کر وضو کرسکتے تھے نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں پانی دے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا یہ روایت مرسل ہے، دوسری حالت میں تیمم کے جواز کی وجہ سفر ہے خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا۔ غائط نرم زمین کو یہاں سے کنایہ کیا گیا ہے پاخانہ پیشاب سے لا مستم کی دوسری قرأت لمستم ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مراد جماع ہے جیسے اور آیت میں ہے (ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33۔ الاحزاب :49) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر مجامعت سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو ان کے ذمہ عدت نہیں، یہاں بھی لفظ (آیت من قبل ان تمسوھن) ہے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اولا مستم النساء سے مراد مجامعت ہے۔ حضرت علی ؓ حضرت ابی بن کعب ؓ حضرت مجاہد ؓ حضرت طاؤس ؓ حضرت حسن ؓ حضرت عبید بن عمیر حضرت سعید بن جبیر ؓ حضرت شعبی ؒ حضرت قتادہ ؒ حضرت مقاتل ؒ بن حیان سے بھی یہی مروی ہے۔ سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے کہا یہ جماع نہیں اور چند عرب نے کہا جماع ہے، میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا ذکر کیا آپ نے پوچھا تم کن کے ساتھ تھے میں نے کہا موالی کے فرمایا موالی مغلوب ہوگئے لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں کنایہ کیا ہے، بعض اور حضرات نے اس سے مراد مطلق چھونا لیا ہے۔ خواہ جسم کے کسی حصہ کو عورت کے کسی حصہ سے ملایا جائے تو وضو کرنا پڑے گا۔ لمس سے مراد چھونا ہے۔ اور اس سے بھی وضو کرنا پڑے گا۔ فرماتے ہیں مباشرت سے ہاتھ لگانے سے بوسہ لینے سے وضو کرنا پڑے گا۔ لمس سے مراد چھونا ہے، ابن عمر ؓ بھی عورت کا بوسہ لینے سے وضو کرنے کے قائل تھے اور اسے لمس میں داخل جانتے تھے عبیدہ، ابو عثمان ثابت ابراہیم زید بھی کہتے ہیں کہ لمس سے مراد جماع کے علاوہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے ہاتھ لگانا ملامست ہے اس سے وضو کرنا پڑے گا (موطامالک) دار قطنی میں خود عمر ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن دوسری روایت آپ سے اس کے خلاف بھی پائی جاتی ہے آپ باوضو تھے آپ نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی۔ پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے تھے واللہ اعلم۔ مطلق چھونے سے وضو کے قائل امام شافعی ؒ اور ان کے ساتھی امام مالک ؒ ہیں اور مشہور امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے۔ اس قول کے قائل کہتے ہیں کہ یہاں دو قرأتیں ہیں لا مستم اور لمستم اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے چناچہ ارشاد ہے (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ) 6۔ الانعام :7) ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے اسی طرح حضرت ماعز بن مالک ؓ کو رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے بوسہ لیا ہوگا ہاتھ لگایا ہوگا وہاں بھی لفظ لمست ہے۔ اور صرف ہاتھ لگانے کے معنی میں ہی اور حدیث میں ہے (حدیث والیدز ناھا اللمس ہاتھ کا " زنا " چھونا اور ہاتھ لگانا ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں بہت کم دن ایسے گزرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آ کر بوسہ نہ لیتے ہوں یا ہاتھ نہ لگاتے ہوں۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے بیع ملامست سے منع فرمایا یہ بھی ہاتھ لگانے کے بیع ہے پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے ہاتھ سے چھونے پر بھی بولا جاتا ہے شاعر کہتا ہے ولمست کفی کفہ اطلب الغنی میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملا میں تونگری چاہتا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص سرکار محمد میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ حضور ﷺ اس شخص کے بارے میں کیا فیصلہ ہے جو ایک جنبیہ عورت کے ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں سوائے جماع کے تو (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ) 11۔ ہود :114) نازل ہوتی ہے اور حضور ﷺ فرماتے ہیں وضو کر کے نماز ادا کرلے اس پر حضرت معاذ ؓ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی کے لئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے کام ہے آپ جواب دیتے ہیں تمام ایمان والوں کے لئے ہے، امام ترمذی ؒ اسے زائدہ کی حدیث سے یہ کہتے ہیں کہ اسے وضو کا حکم اسی لئے دیا کہ اس نے عورت کو چھوا تھا جماع نہیں کیا تھا۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً تو یہ منقطع ہے ابن ابی لیلی اور معاذ کے درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں دوسرے یہ کہ ہوسکتا ہے اسے وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے لئے دیا ہو جیسے کہ حضرت صدیق ؓ والی حدیث ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ پوری حدیث سورة آل عمران میں (ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ) 3۔ آل عمران :135) کی تفسیر میں گزر چکی ہے، امام ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد اس سے جماع نہ کہ اور۔ کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آچکا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے نماز پڑھی، حضرت مائی عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں آنحضرت رسول مقبول ﷺ وضو کرتے بوسہ لیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے۔ حضرت حبیب ؒ فرماتے ہیں مائی عائشہ ؓ نے فرمایا حضور ﷺ اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے نماز کو جاتے میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں، اس کی سند میں کلام ہے لیکن دوسری سندوں سے بغیر وضو کیے ثابت ہے کہ اوپر کے راوی یعنی حضرت صدیقہ ؓ سے سننے والے حضرت عروہ بن زبیر ؒ ہیں اور روایت میں ہے کہ وضو کے بعد حضور ﷺ میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا کی، حضرت ام المومنین ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ بوسہ لیتے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے پھر نہ تو روزہ جاتا نہ نیا وضو کرتے (ابن جریر) حضرت زینت بنت خزیمہ فرماتی ہیں حضور ﷺ بوسہ لینے کے بعد وضو نہ کرتے اور نماز پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اس سے اکثر فقہا نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لئے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی ؟ کیا تو مسلمان نہیں ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہوگیا اور پانی نہ ملا آپ نے فرمایا پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی تھی۔ تیمم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں تیممک اللہ بحفظہ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے، امراء القیس کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے، صعید کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے اوپر کو چڑھے پس اس میں مٹی ریت درخت پتھر گھاس بھی داخل ہوجائیں گے۔ امام مالک ؒ کا قول یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا یہ مذہب ابوحنیفہ ؒ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں (فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا) 18۔ الکہف :40) یعنی ہوجائے وہ مٹی پھسلتی دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کے ترتیب دی گئیں ہمارے لئے تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک اور پاک کرنے والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں اور ایک سند سے بجائے تربت کے ترابت کا لفظ مروی ہے۔ پس اس حدیث میں احسان کے جتاتے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام کام آنے والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کردیتے۔ یہاں یہ لفظ طیب اسی کے معنی میں آیا ہے۔ مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے جیسے حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم سے بہائے یہ اس کے لئے بہتر ہے، امام ترمذی ؒ اسے حسن صحیح کہتے ہیں حافظ ابو الحسن قطان ؒ بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن عباس ؓ فرماتے ہیں سب سے زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہے بلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے مرفوعاً وارد کیا ہے پھر فرمان ہے کہ اسے اپنے چہرے پر اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے، لیکن کیفیت تیمم میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ جدید مذہب شافعی یہ ہے کہ دو دفعہ کر کے منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے اس لئے کہ یدین کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے جیسے آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں جیسے کہ چور کی حد کے بارے میں فرمایا (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) 5۔ المائدہ :38) کہتے ہیں یہاں تیمم کے حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے اور وضو کے حکم سے مشروط ہے اس لئے اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دار قطنی والی روایت پیش کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا تیمم کی دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں اس لئے کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے حدیث ثابت نہیں۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ ایک دیوار پر مارے اور منہ پر ملے پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے۔ لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں انہیں بعض حافظان حدیث نے ضعیف کہا ہے، اور یہی حدیث بعض ثقہ راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا فعل بتاتے ہیں امام بخاری ؒ امام شافعی ؒ کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پیشاب کر رہے ہیں میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے پھر میرے سلام کا جواب دیا (ابن جریر) یہ تو تھا امام شافعی ؒ کا جدید مذہب۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہیں لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیے، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے اور دونوں پر پہنچے تک مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آیا کہ میں جنبی ہوگیا اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھنی چاہیے دربار میں حضرت عمار ؓ بھی موجود تھے فرمانے لگے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کرلی جب میں واپس پلٹے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعہ کا بیان حضور ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا مجھے اتنا کافی تھا پھر حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک ماردی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا جو چہرے کے لئے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے لئے ہے، مسند احمد میں ہے حضرت شقیق ؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ؓ اور حضرت ابو موسیٰ رض اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو لیلیٰ ؒ نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے تو نماز نہ پڑھے اس پر حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا کیا تمہیں یاد نہیں جبکہ مجھے اور آپ کو رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے بارے میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہوگیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا واپس آ کر حضور ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ہنس دئیے اور فرمایا اپنے چہرے پر ایک بار ہاتھ پھیر لئے اور ضرب ایک ہی رہی، تو حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا لیکن حضرت عمر ؓ نے اس پر قناعت نہیں کی یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے جو سورة نساء میں ہے کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اس کا جواب حضرت عبداللہ ؓ نہ دے سکے اور فرمانے لگے سنو ہم نے لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے کہ پانی جب انہیں ٹھنڈا معلوم ہوگا تو وہ تیمم کرنے لگیں گے سورة مائدہ میں فرمان ہے (فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ) 5۔ المائدہ :6) اسے اپنے چہرے اور ہاتھ پر ملو۔ اس سے حضرت امام شافعی ؒ نے دلیل پکڑی ہے کہ تیمم کا پاک مٹی سے ہونا اور اس کا بھی غبار آلود ہونا جس سے ہاتھوں پر غبار لگے اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے ضروری ہے جیسے کہ حضرت ابو جہم رض اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث میں گزرا ہے۔ کہ انہوں نے حضور ﷺ کو استنجا کرتے ہوئے دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنی لکڑی سے کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے اسی لئے پانی نہ پانے کے وقت مٹی کے ساتھ تیمم کرلینے کو مباح قرار دے کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔ پس یہ امت اس نعمت کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، مہینے بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے کی گئی ہے، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے میرے جس امتی کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہ وہیں پڑھ لے اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں اس کے پاس موجود ہے، میرے لئے غنیمت کے مال حلال کیے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے، مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا اور صحیح مسلم کے حوالے سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ہمارے لئے زمین مسجد بنائی گئی اور اپنے ہاتھ پر مسح کر۔ پانی نہ ملنے کے وقت اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اس کی عفو و در گزر شان ہے کہ اس نے تمہارے لئے پانی نہ ملنے کے وقت تیمم کو مشروع کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑجاتے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نماز کو ناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہے مثلاً نشے کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بےوضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں پڑھ سکتے لیکن بیماری کی حالت میں اور پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو کے قائم مقام تیمم کردیا، پس اللہ تعالیٰ اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں الحمدا للہ۔ تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ بھی سن لیجئے ہم اس واقعہ کو سورة نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لئے بیان کرتے ہیں کہ سورة مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل ہوئی یہ اس کے بعد کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد نبی ﷺ بنو نصیر کے یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورة مائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے۔ اللہ نیک توفیق دے اسی کا بھروسہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت اسماء ؓ سے ایک ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں فوت ہوگیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا۔ انہوں نے بےوضو نماز ادا کی اور آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا، حضرت اسید بن حضیر ؓ کہنے لگے اے ام المومنین عائشہ ؓ آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے۔ بخاری میں ہے حضرت صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گرپڑا جس کے ڈھونڈنے کے لئے حضور ﷺ مع قافلہ ٹھہر گئے اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا لوگ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق ﷺ کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑگئے چناچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے آتے ہی مجھے کہنے لگے تو نے حضور ﷺ کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے پاس پانی ہے نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں اپنے ہاتھ سے کچو کے بھی مارتے رہے لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ حضور ﷺ کے آرام میں خلل واقع ہو ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا حضرت اسید بن حضیر ؓ کہنے لگے اے ابوبکر ؓ کے گھرانے والو یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں، اب جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر یہ سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہی ہار مل گیا۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی اہلیہ حضرت عائشہ ؓ کے ہمراہ ذات الجیش سے گزرے۔ ام المومنین ؓ کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرپڑا تھا اور گم ہوگیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے ساری رات آپ کے ہم سفر مسلمانوں نے اور آپ نے یہیں گزاری صبح اٹھے تو پانی بالکل نہی تھا پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پاک مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرنے کی رخصت کی آیت اتاری اور مسلمانوں نے حضور کے ساتھ کھڑے ہو کر زمین پر اپنے ہاتھ مارے اور جو مٹی ان سے لت پت ہوئی اسے جھاڑے بغیر اپنے چہرے پر اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے نیچے سے بغل تک مل لی۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اس سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضرت عائشہ ؓ پر سخت غصہ ہو کر گئے تھے لیکن تیمم کی رخصت کے حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی صاحبہ ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی پھر مسلمانوں نے زمین پر ایک ضرب سے چہرے ملے اور دوسری ضرب سے کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے گئے ابن مردویہ میں روایت ہے حضرت اسلع بن شریک ؓ فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کو چلا رہا تھا۔ جس پر حضور ﷺ سوار تھے جاڑوں کا موسم تھا رات کا وقت تھا سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہوگیا ادھر حضور ﷺ نے کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی اس حالت میں حضور ﷺ کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے نہاؤں گا تو مرجاؤں گا یا بیمار پڑجاؤں گا تو میں نے چپکے سے ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے چناچہ وہ چلاتے رہے اور میں نے آگ سلگا کر پانی گرم کر کے غسل کیا پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا آپ نے مجھے فرمایا اسلع کیا بات ہے ؟ اونٹنی کی چال کیسے بگڑی ہوئی ہے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں اسے نہیں چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے تھے آپ نے فرمایا یہ کیوں ؟ تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا) 4۔ النسآء :43) تک نازل فرمائی یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
Top