Fi-Zilal-al-Quran - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی ، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی ، اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی “۔
اللہ کے لئے خالص ہوجانے کی یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ مثال ہے ، کہ وہ تمام موثرات کا مقابلہ کررہی ہے۔ تمام تعلقات کا مقابلہ کررہی ہے ، تمام رکاوٹوں کو عبور کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی لازوال کتاب میں وہ اپنا نام لکھواگئی۔ اور جب اس کتاب کے نزول کے وقت اس عورت کا نام پکارا جارہا ہوگا کہ اس عظیم کائنات کی لامحدود وادیوں میں اس کی گونج مچی ہوگی۔ ومریم ابنت عمرن (66 : 21) ” عمران کی بیٹی مریم “۔ یہ بھی آغاز ہی سے پارسا خاتون تھیں۔ قرآن کریم نے دوسری سورتوں میں ان کی تعریف کی ہے۔ یہاں ان کی پاکیزگی کی سیرت کی بات ہے۔ التی ............ فرجھا (66 : 21) ” جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی “۔ یہودی آپ پر الزامات عائد کرتے تھے ، قرآن کریم آپ کی برات کا اعلان کرتا ہے۔ فنفخنا ............ روحنا (66 : 21) ” پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونکی “۔ اور اس روح کے نتیجے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے ، جیسا کہ سورة مریم میں اس کی تفصیلات گزر گئی ہیں۔ یہاں ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہاں مقصد صرف آپ کی طہارت اور آپ کے ایمان کامل کو ثابت کرنا ہے۔ وصدقت ................ من القنتین (66 : 21) ” اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی “۔ یہاں امراة فرعون کا علیحدہ ذکر کرنا ، پھر اس کو حضرت مریم (علیہ السلام) کے ساتھ برابری کی سطح پر ذکر کرنا ، اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے نزدیک فرعون کی بیوی کا مرتبہ بھی بہت بلند تھا ، کیونکہ وہ نہایت ہی مشکل حالات میں راہ ایمان پر جمی ہوئی تھی۔ بہرحال نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے سامنے یہ دو نمونے رکھے جاتے ہیں کہ آپ لوگوں کا کردار اس قدر بلند ہونا چاہئے اور اہل ایمان کو قیامت تک یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلامی سوسائٹی کو قائم کرنا ہے تو اس کے لئے باکردار اور مسلم خواتین پیدا کرو۔ بہرحال آخر میں ہم دوبارہ اس طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں کہ یہ سورت اور یہ پورا پارہ بہترین اور زندہ مثال ہے نبی کریم کی سیرت کی۔ اور ان سورتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام اور صحابیات کی جو جماعت تیار کی ، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ہے۔ پھر قرآن کریم نے سیرت النبی کے واقعات کو جس انداز میں بیان کیا ہے وہ قرآن کا منفرد انداز ہے۔ ایک جزوی واقعہ کو مخصوص حالات سے نکال کر اور زمان ومکان کا رنگ اڑاکر قرآن اس کو ایک ابدی اصول کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ کام قرآن ہی کرسکتا ہے۔ پڑھنے والا اسے ایک واقعہ کے پس منظر میں پڑھ کر سمجھتا ہے ، لیکن قرآن اس سے جو نتائج اخذ کرتا ہے ، وہ کلی ہوتے ہیں۔
Top