Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
هَادُوْا
: یہودی ہوئے
وَالصّٰبِئُوْنَ
: اور صابی
وَالنَّصٰرٰى
: اور نصاری
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: اور آخرت کے دن
وَعَمِلَ
: اور اس نے عمل کیے
صَالِحًا
: اچھے
فَلَا خَوْفٌ
: تو کوئی خوف نہیں
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا هُمْ
: اور نہ وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
بیشک جو ایمان لائے ‘ جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصاریٰ ‘ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ‘ ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِ اللہ ِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ (المائدہ : 69) ’ ’ بیشک جو ایمان لائے ‘ جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصاریٰ ‘ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ‘ ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے “۔ صٰبِئُوَنکون تھے ؟ اس آیت کریمہ میں چار مذہبی گروہوں یعنی مومن (مسلمان) یہودی ‘ نصاریٰ اور صابیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں مسلمانوں کا ذکر قطع نظر اس کے کہ باقی گروہوں کے اعتبار سے وہ راہ راست اور ہدایت پر ہیں ‘ اس وقت صرف ایک گروہ کے طور پر کرنا مقصود ہے۔ دوسرا گروہ یہودی اور تیسرا نصاریٰ ۔ ان کے بارے میں تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں البتہ جہاں تک چوتھے گروہ یعنی صابیوں کا تعلق ہے ‘ ان کا آج دنیا میں کہیں وجود نہیں۔ اس لیے ان کے تعارف میں دشواری پیش آتی ہے۔ اہل علم کے اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ مجاہدؔ اور حسن کے نزدیک یہ لوگ کسی خاص دین کے پیرو نہیں تھے ‘ بلکہ یہودیت اور مجوسیت کے بین بین تھے۔ ان لوگوں کے نزدیک ان کا ذبیحہ حرام ہے۔ ابن زیدؔ کا قول ہے کہ یہ ایک مخصوص دین کے پیرو تھے اور جزیرہ موصل میں آباد تھے۔ ان کا عقیدہ توحید تھا ‘ لیکن نہ تو یہ کسی نبی اور کسی کتاب کے پیرو تھے اور نہ ان کے ہاں شرعی اعمال کا کوئی مخصوص نظام تھا۔ قتادہؔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ملائکہ کی پرستش کرتے ‘ قبلہ کی طرف نماز پڑھتے اور زبور کی تلاوت کرتے تھے۔ ابوالعالیہؔ اور سفیانؔ کے نزدیک یہ لوگ اہل کتاب میں سے ایک فرقہ تھا۔ محققین فرماتے ہیں کہ یہ اقوال بظاہر متضاد نظر آتے ہیں ‘ لیکن حقیقت میں ان میں تضاد نہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اوّل اوّل یہ لوگ دین حق پر تھے ‘ لیکن بعد میں یہ لوگ دین حق سے منحرف ہو کر ملائکہ اور ستاروں کی پرستش میں مبتلا ہوگئے۔ قرآن کریم نے اس گروہ کا جس انداز سے ذکر فرمایا ہے ‘ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ ابتدائًً دین حق پر تھے ‘ بعد میں بدعتوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوگئے۔ تاریخی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور اس کا ان میں عام رواج تھا۔ چناچہ اسی اشتراک کے سبب سے مشرکین آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ ( رض) کو صابی کہتے تھے، چونکہ اس مذہب کے پیرو کاروں کا وجود اب کہیں باقی نہیں رہا ہے اور نہ ان کی کوئی مستند تاریخ ہی موجود ہے ‘ اس وجہ سے ان کے متعلق اعتماد سے کوئی بات کہنا مشکل ہے۔ لیکن قرآن مجید کے زمانہ نزول میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرقہ کی حیثیت سے ان لوگوں کا وجود بالکل معروف تھا۔ اللہ کے ہاں خاندانی نسب اور گروہی نسبت کی کوئی وقعت نہیں اہل مذاہب میں چار آسمانی کتابیں معلوم و معروف ہیں اور ان کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ تورات کے ماننے والے یہود ہیں۔ انجیل کے ماننے والے عیسائی ہیں اور قرآن کے ماننے والے مسلمان ہیں۔ صابیوں کا ذکر شاید اسی وجہ سے کیا گیا ہے کہ یہ چار کتابوں میں سے زبور کے ماننے والے تھے۔ قرآن کریم کے ان چاروں کے ذکر کرنے سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیکھو یہ چار گروہ اس وقت موجود ہیں ‘ ان میں مسلمان اس وقت راہ ہدایت پر قائم ہیں ‘ لیکن اگر وہ بھی ان تینوں گروہوں کی طرح صرف گروہی نسبت کو اپنے لیے نجات کا ذریعہ سمجھ کر اس پر قانع ہو کر بیٹھ جائیں تو جس طرح ان تینوں گروہوں کے لیے یہ گروہی نسبت نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی ‘ اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی نجات کا ذریعہ نہیں بنے گی۔ اس سے اہل کتاب اور مسلمانوں کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ گروہی نسبتیں اور گروہی انتسابات اللہ کے یہاں کسی قدر و قیمت کے حامل نہیں۔ اس کے یہاں جو چیز قدر و قیمت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ صرف ایمان و عمل کا سرمایہ ہے۔ اس لیے اے اہل کتاب تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تم نے آج تک صرف اپنے خاندانی نسب اور گروہی نسبت کو سب کچھ سمجھ کر اپنی دنیا اور آخرت برباد کی ہے ‘ اس لیے اب تمہیں اپنی اس گمراہی سے تائب ہو کر راہ راست پر آجانا چاہیے۔ وحدتِ ادیان کا بھونڈا نظریہ دونوں آیتوں کے سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے اس آیت کا یہ وہ صاف اور سیدھا مفہوم ہے ‘ جو ہم نے ذکر کیا ہے لیکن برا ہو کج فہمی کا کہ بعض لوگوں نے نہ جانے کیسے یہ مفہوم اس سے اخذ کرلیا کہ سابقہ امتوں کے لوگ اگر اپنے اپنے صحیفوں اور اپنی مذہبی تفصیلات پر عمل کرتے رہیں تو ان کی نجات کے لیے کافی ہے۔ رسولوں پر ایمان لانا اور بالخصوص آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ‘ جس پر اسلام کا دارومدار ہے ‘ کوئی ضروری نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاق کلام خود بول رہا ہے کہ یہاں تردید ان کی گروہی عصبیت کی کی جا رہی ہے اور اہل کتاب کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم نے اپنی عصبیتوں کی وجہ سے جس طرح اپنی مذہبی اور شرعی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا ہے ‘ یہ تمہارے لیے تباہی کا راستہ ہے ‘ حالانکہ تمہارے پاس کتابیں موجود ہیں ‘ پیغمبر آتے رہے ‘ انھوں نے ہمیشہ تمہیں ایمان و عمل کی تاکید کی ‘ لیکن بجائے ایمان و عمل پر محنت کرنے کے تم اپنی نسبتوں پر فخر کر کے آج تک زندگی گزارتے رہے ہو۔ اس لیے اب بھی موقع ہے کہ اگر ایمان و عمل کا راستہ اختیار کرو تو تم اللہ کے یہاں اجر وثواب کے مستحق ٹھہرو گے ‘ واضح ہے کہ اس میں نہ ایمان کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور نہ عملی مسائل چھیڑے گئے ہیں ‘ بلکہ ان کی بنیادی کمزوری کا ذکر کرنے کے بعد ان کو اساسی حقیقت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ لیکن جو بات کج فکری یا بدنیتی سے اس میں ڈالی جا رہی ہے ‘ جسے آج کی زبان میں وحدت ادیان کا نام دیا گیا ہے ‘ اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو پھر دو باتوں کا جواب ضروری ہے : ایک تو یہ بات کہ اگر کسی ایک مذہب کو ماننا اور اس کی دی ہوئی شریعت پر عمل کرنا نجات کے لیے کافی ہے تو پھر یہ بار بار اللہ کی جانب سے انبیاء و رسل کیوں آتے رہے ؟ دوسری یہ بات کہ اگر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا ضروری نہیں تو حضور ﷺ کو دنیا میں کیوں بھیجا گیا ؟ قرآن کریم کیوں اتارا گیا اور اس وقت کی دنیا میں اس دین کے نفاذ کے لیے جس طرح آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام ( رض) نے برس ہا برس تک جان توڑ محنت کی اور اس راستے میں زندگی کا ہر دکھ اٹھایا اور قربانیوں کی ایسی تاریخ مرتب کی جس کی نظیر کہیں اور ملنا آسان نہیں تو آخر اس سارے تکلف کی ضرورت کیا تھی ؟ صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ لوگ اپنے اپنے صحیفوں پر عمل کرتے رہیں ‘ جو مذہب بھی جس کے پاس موجود ہے وہ اس کی نجات کے لیے کافی ہے۔ کیا ایمانیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور چیز پر ایمان ضروری ہے ؟ اہل علم کے نزدیک یہ اصول ہمیشہ مسلّم رہا ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت سے اگر کوئی بات پوری طرح سمجھ نہ آرہی ہو یا اشتباہ پیدا ہو رہا ہو تو اس کے سمجھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی دوسری آیات کو دیکھا جائے۔ اگر قرآن کریم کی دوسری آیات میں اس کی وضاحت مل جائے تو پھر کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں ہم دو باتیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس آیت کریمہ میں چونکہ صرف اللہ پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور رسولوں پر ایمان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ تو کیا دوسری آیات میں کہیں رسولوں پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا گیا ہے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ کیا ایمانیات میں اللہ کے ساتھ کچھ اور بھی چیزیں موجود ہیں یا نہیں ‘ جن پر ایمان لانا ضروری ہو۔ اس حوالے سے صرف دو آیتوں پر غور فرمایئے۔ تمام رسولوں پر ایمان نہ لانے والا کافر ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِ اللہ ِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُوْمِنُ بَبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضً لا وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً ۔ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًا ج (النساء 4: 150) (جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کردیں (کہ اللہ پر تو ایمان لائیں مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ ہو) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض (رسولوں) کو مانتے ہیں اور بعض (رسولوں) کو نہیں مانتے اور وہ یہ چاہیں کہ (کفر و اسلام کے) بیچ کا ایک راستہ نکال لیں ‘ تو سمجھ لو کہ وہی اصل میں کافر ہیں) اس آیت کریمہ میں پروردگار نے اللہ پر ایمان اور اس کے رسولوں کے انکار کو کفر قرار دیا ہے اور جو لوگ صرف اللہ پر ایمان کو کافی سمجھتے ہیں اور رسولوں کا انکار کرتے ہیں ‘ انھیں کافر قرار دیا ہے اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی دیکھ لیجئے کہ قرآن کریم اللہ کے ساتھ اور کن پر ایمان لانا ضروری قرار دیتا ہے۔ اس کی تفصیل کا تو موقع نہیں ‘ صرف ایک مختصر آیت پیش خدمت ہے۔ یہ آیت کریمہ سورة البقرہ کی ان آخری آیات میں سے ہے ‘ جو آنحضرت ﷺ پر معراج کے سفر میں نازل ہوئیں اور حضور ﷺ نے جن کی بےانتہا فضیلت بیان فرمائی۔ اس میں ایمانیات کی تفصیل کو بیان کرتے ہوئے پروردگار ارشاد فرماتے ہیں : کُلٌّ اٰمَنَ بِ اللہ ِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ قف لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف (البقرہ 2: 285) (سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ‘ اس طرح کہ اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے) توجہ فرمایئے ! اس آیت میں اللہ کے ساتھ فرشتوں ‘ کتابوں اور رسولوں کو بھی ایمانیات میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے کی حقیقت دوسری بات جو سمجھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا اس حد تک ضروری ہے کہ اس کے بغیر اسلام کے تحقق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ خود باری تعالیٰ پر ایمان بھی اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لایا جائے اور ان کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کو نہ سمجھا جائے۔ اس لیے کہ بغیر ذات نبوت کے نہ تو ذات باری تعالیٰ کا یقین پیدا ہوسکتا ہے اور نہ اس کی صفات کے علم کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ اس لیے جب ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ کے رسول کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق لاتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ہم اس عظیم ذات کے بارے میں کوئی واضح تصور قائم نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے قرآن کریم نے پوری نوع انسانی کو جب اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے تو ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا بھی لازمی قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا : قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِالَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ یُحْیِِ وَ یُمِیْتُ ص فَاٰمِنُوْا بِ اللہ ِ وَ رَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الاُْمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِ اللہ ِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہٗ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ۔ (الاعراف 7: 158) (کہہ دو ! اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ اس اللہ کا جس کے لیے ہی ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہ۔ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی پر ‘ جو ایمان لاتا ہے اللہ اور اس کے کلمات پر اور اس کی پیروی کرو ‘ تاکہ تم راہ یاب ہو) سورة اعراف ہی کی ایک اور آیت کریمہ میں بطور خاص اہل کتاب سے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد اہل کتاب میں سے اللہ کی رحمت سے صرف وہ لوگ حصہ پائیں گے ‘ جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں گے اور جو حضور ﷺ پر ایمان نہیں لائیں گے ان کا اللہ کی رحمت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی امت کے لیے رحمت کی دعا نقل کی گئی ہے کہ آپ نے اللہ سے اپنی امت کے لیے رحمت مانگی تو پروردگار نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ رحمت ان لوگوں کے لیے خاص ہوگی جو تقویٰ اختیار کریں گے ‘ زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اس رحمت سے وہ لوگ نوازے جائیں گے جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائیں گے۔ اب ذرا اس آیت کریمہ کو پڑھئے : وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الآْخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُج وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰاتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الاُْمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالاِْنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ و یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہُٓ لا اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (الاعراف 7: 157-156) (اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے ‘ ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ فرمایا ‘ میں اپنے عذاب جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے۔ سو میں اس کو لکھ رکھوں گا ‘ ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ (یعنی) جو اس رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جس کو لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں ‘ جو ان کو حکم دیتا ہے نیکی کا اور روکتا ہے برائی سے اور حلال ٹھہراتا ہے ان کے لیے پاکیزہ چیزیں اور حرام ٹھہراتا ہے ناپاک چیزیں اور ان سے دور کرتا ہے وہ بوجھ اور پھندے جو ان پر تھے۔ پس جو اس پر ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی تائید اور مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے ‘ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ) قرآن کریم کی اس قدر واضح آیات کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ اس غلط فہمی کی کیا بنیاد باقی رہ جاتی ہے کہ صرف اللہ پر ایمان کافی ہے کسی اور پر ایمان کی ضرورت نہیں یا یہ کہ رسولوں پر ایمان ضروری نہیں اور آخری انتہائی خطرناک بات یہ کہ نبی آخری الزمان ﷺ پر ایمان لانا کوئی ضروری نہیں۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد دنیا کے لیے صراط مستقیم پانے اور نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لایا جائے اور آپ کی پیروی کی جائے۔ اس کے سوا نجات حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اور پھر اس پر قرآن کریم کی بیسیوں آیات واضح راہنمائی بھی دے رہی ہیں۔ لیکن کج فکری اور کج روی کی انتہا ہے کہ تمام آیات کی طرف سے آنکھ بند کرلی جائے اور صرف ایک آیت کو ذریعہ بنا کر اپنی کج فکری اور گمراہی کا سامان کیا جائے۔ گزشتہ دونوں آیات میں ہم اچھی طرح پڑھ چکے ہیں کہ اہل کتاب کو ان کی اصل ذمہ داری کی طرف واپس لانے اور ان کی اصل بنائے فضیلت کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف پیرایوں سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تمہاری اصل ذمہ داری یہ تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف نازل کردہ کتابوں کی روشنی میں اس کے پیغام کو عام کرتے اور اس کے دیئے ہوئے نظام زندگی کو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں پر نافذ کرتے۔ اب اگلی آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے ان کی اصل ذمہ داریوں کے بارے میں صرف یہی نہیں کیا کہ ان کو آگاہ کردیا ہو بلکہ ہم نے بنی اسرائیل سے اس کا عہدوپیمان بھی لیا اور پھر ان کے پیشگی تغافل کو دیکھتے ہوئے اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ ایک ہی دفعہ کا عہد و میثاق کافی ہے بلکہ ہم نے یاد دہانی کے لیے بار بار رسول بھیجے۔ لیکن ان سے انھوں نے جس طرح کا سلوک کیا اس کے حوالے سے آغاز کلام میں یہ ارشاد فرمایا گیا تھا کہ اے اہل کتاب ! تم کسی بنیاد پر کھڑے نہیں ہو ‘ کیونکہ تم نے ہر بنیاد کو اپنے ہاتھوں سے گرا دیا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے :
Top