Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالصّٰبِئُوْنَ : اور صابی وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کے دن وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں گے اور عمل نیک کریں گے خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا ستارہ پرست یا عیسائی ان کو (قیامت کے دن) نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہونگے۔
آیت 69 : اِنَّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْٓا بیشک جو لوگ ایمان لائے اپنی زبانوں سے حالانکہ وہ منافق ہیں۔ اور اس زبانی ایمان پر دوسری آیت دلالت کر رہی ہے۔ ولا یحزنک الذین یسارعون فی الکفر من الذین قالوا ٰامنا بافواہہم ولم تؤمن قلوبہم۔ وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصٰرٰی اور وہ لوگ جو یہودی اور صابی اور نصاریٰ ہوئے۔ سیبویہ کہتے ہیں کہ الصابئونکا رفع ابتداء کی وجہ سے ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔ اور مقصد اس سے یہ ہے ان اور جو اس کے متعلق اسم و خبر ہے اس سے یہ مؤخر ہے گویا عبارت اس طرح ہے ان الذین ٰامنوا والذین ہادوا والنصاری مَنْ ٰامَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ والصابئون کذلک۔ مطلب یہ ہے کہ من ٰامن باللّٰہ والیوم الٰاخر فلا خوف علیہم کو مقدم کیا اور الصابئون کی خبر حذف کردی۔ جیسا کہ اس شعر میں فمن یک امسٰی بالمدینۃ رحلہ۔ فاننی و قیّارٌ بہا لغریبٌ مطلب یہ ہے فانی غریبٌ و قیارٌ کذالک غریبٌ۔ لغریبٌکی لام دلالت کرتی ہے کہ یہ اِنَّ کی خبر ہے۔ ان اور اس کے اسم کے محل پر عطف کی وجہ سے مرفوع نہیں ہوسکتا۔ تم اس طرح نہیں کہہ سکتے۔ ان زیدًا و عمروا منطلقان البتہ یہ بلاشبہ جائز ہے ان زیدًا منطلق و عمرو۔ پس والصابئون اپنی محذوف خبر کے ساتھ جملہ معطوفہ ہے۔ جملہ ان الذین ٰامنوا الخ۔ اور اس کا کوئی محل اعراب نہیں ہے۔ جیسا کہ اس جملے کا کوئی محل اعراب نہیں جس پر اس کا عطف ہے۔ ایک سوال کا جواب : سوال : یہ ہے کہ اس کو مقدم کیوں کیا ؟ جواب : یہ ہے کہ اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہے۔ کہ صائب لوگوں کی توبہ قبول کرلی جائے گی اگر وہ صحیح طریقہ سے ایمان لے آئیں۔ حالانکہ وہ ان تمام سے بڑھ کر گمراہ ہیں تو پھر ان کے علاوہ کی توبہ کے بارے میں تیرا کیا گمان ہے ؟ مَنْ ٰامَنَ یہ مبتداء کی وجہ سے مرفوع ہے۔ اور اس کی خبر فلا خوف علیہم ہے۔ اور خبر پر فا اس لئے لائی گئی کیونکہ مبتداء میں شرط کا معنی پایا جاتا ہے۔ پھر یہ مکمل جملہ جس طرح اِنَّکی خبر ہے اور ضمیر جو اِنَّ کے اسم کی طرف لوٹتی ہے وہ محذوف ہے تقدیر عبارت اس طرح من ٰامن منہم۔
Top