Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالصّٰبِئُوْنَ : اور صابی وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کے دن وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک جو مسلمان ہیں اور جو یہودی ہیں اور فرقہ صابی اور نصاریٰ جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور روز قیامت پر اور عمل کرے نیک نہ ان پر ڈر ہے نہ وہ غمگین ہونگے2
2 یعنی جو قوم مسلمان کہلاتی ہے یا یہود یا نصاریٰ یا صابی (یا اور کچھ ثمثیلاً چند مشہور مذاہب کا ذکر کیا گیا ہے) کوئی شخص ان ناموں کی بدولت یا نسل، رنگ، پیشہ، وطن وغیرہ احوال و خصائص کے لحاظ سے حقیقی فلاح اور دائمی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ کامیاب اور مامون و مصؤن ہونے کا ایک اور صرف ایک معیار ہے یعنی ایمان و عمل صالح جس قوم کو اپنے مقرب الہٰی یا کامیاب ہونے کا دعویٰ ہو وہ اسی کسوٹی پر اپنے کو کس کر دیکھ لے۔ اگر اس میں کھری اترے تو بےخوف و خطر مفلح اور کامیاب ہے ورنہ ہر وقت اپنے خدا کے غضب و قہر کے نیچے سمجھے۔ پچھلی آیات میں خاص اہل کتاب کو تبلیغ تھی اس آیت میں تمام اقوام و ملل کے سامنے بلا رو رعایت ایسا عجیب و غریب معقول اور منصافانہ قانون پیش کیا گیا ہے جس کے بعد کسی سلیم الفطرت انسان کو اسلام کی صداقت اور ہمہ گیری میں شبہ نہیں رہ سکتا۔ ایک شخص جب تک خدا (یعنی اس کے وجود، وحدانیت، صفات کمالیہ، نشانہائے قدرت، تمام احکام و قوانین، کل نائبین وسفراء) پر اور روز جزاء پر ایمان نہ لائے اور نیکی اختیار نہ کرے، کیا عقل سلیم قبول کرسکتی ہے کہ وہ نعیم دائم، رضائے حق اور سرور ابدی سے ہمکنار ہو سکے گا۔ " ایمان باللہ " کے تحت میں یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ فرض کرو ایک شخض روشن دلائل نبوت کی موجودگی میں کسی پیغمبر کی توہین کرتا ہے (اور اس کو دعویٰ نبوت میں جھوٹا کہنا یہی اس کی توہین ہے) تو کیا کسی حکومت کے سفیر کی توہین اور اس کے صاف وصریح اسناد سفارت کی تکذیب اس حکومت کی توہین و تکذیب نہیں ؟ اسی طرح سمجھ لو کہ جو شخص کسی ایک سچے پیغمبر کی تکذیب کرتا ہے اور اس کو قبول نہیں کرتا وہ فی الحقیقت خدا کے ان صاف وصریح نشانات و دلائل کو جھٹلا رہا ہے جو اس نے تصدیق نبوت کے لئے اتارے تھے۔ (فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَلٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :33) کیا اللہ کی آیات اور صریح و اعلانیہ نشانات کو جھٹلانے کے بعد بھی " ایمان باللہ " کا دعویٰ رہ سکے گا۔ قرآن کریم نے جن تفصیلات کی طرف " ایمان باللہ و عمل صالح " کے اجمالی عنوان سے یہاں اشارہ فرمایا ہے۔ دوسرے مواضع میں وہ شرح و بسط سے مذکور ہیں۔ میرے نزدیک زیادہ صحیح اور قوی قول یہ ہے کہ صابئین عراق میں ایک فرقہ تھا جن کے مذہبی اصول عموماً حکمائے اشراقیین اور فلاسفہ طبیعیین کے اصول سے ماخوذ تھے۔ یہ لوگ روحانیات کے متعلق نہایت غلو رکھتے بلکہ ان کی پرستش کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ارواح مجردہ اور مد برات فلکیہ وغیرہ کی استعانت و استمداد سے ہی ہم رب الارباب (یعنی بڑے معبود) تک پہنچ سکتے ہیں۔ اتباع انبیاء کی ضرورت نہیں۔ کواکب کی ارواح مدبرہ اور اسی طرح دوسری روحانیات کو اپنے سے خوش رکھنے کے لئے ہیاکل بناتے تھے اور انہی ارواح کے لئے نماز، روزہ اور قربانی وغیرہ کرتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ حنفاء کے مقابلہ میں صابئین کی جماعت تھی۔ جن کا سب سے بڑا حملہ نبوت اور اس کے لوازم و خواص پر ہوتا تھا۔ حضرت ابراہیم حنیف (علیہ السلام) کی بعثت کے وقت نمرود کی قوم صابی العقیدہ تھی جس کے رد و ابطال میں خدا کے خلیل نے جانبازی دکھلائی۔
Top