Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 69
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئُوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالصّٰبِئُوْنَ : اور صابی وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کے دن وَعَمِلَ : اور اس نے عمل کیے صَالِحًا : اچھے فَلَا خَوْفٌ : تو کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک جو کوئی مسلمان اور یہودی اور صابی اور نصرانی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاوے اور اچھے کام بھی کرے تو اس پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غمگین ہوگا۔
ترکیب : من آمن شرط فلا خوف الخ جواب جملہ خبران والصابئون مبتدا اس کی خبر محذوف جیسا کہ فانی و قیاربہا لغریب ای فانی لغریب وقیار بہا کذلک کلما جاء شرط ھم جاء کا بسبب متعدی ہونے کے مفعول اول بما لاتہویٰ مفعول ثانی رسول فاعل فریقا الخ جملہ جواب۔ تفسیر : چونکہ یہود و نصاریٰ کو یہ گمان تھا کہ نجات یہودی یا نصرانی کے بعد اور کو نہیں ہوگی اور اب تک دونوں فریق کو یہی گمان ہے جیسا کہ ہنود کا گمان ہے۔ حالانکہ یہ گمان بالکل غلط ہے۔ اس کا ابطال کرنا منصب خاتم النبوۃ کا فرض تھا۔ اگر یوں ابطال کرتے کہ تمہارا گمان غلط ہے تو چنداں موثر نہ ہوتا بلکہ وہ یہ طعن کرتے کہ یہ نبی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی اتباع سے منع کیا کرتا ہے۔ کیسا نبی ہے ؟ بلکہ ایک ایسی مسلم بات بیان کی کہ جس کی تسلیم کے بغیر کسی عقلمند آدمی کو چارہ نہیں ہے جس سے خود بخود ان کے عقیدہ فاسدہ کا ابطال ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ خدا نے انسان کو دو قوتیں عنایت کی ہیں جن کی تکمیل سے اس کی نجات ہے۔ ایک قوت نظریہ اس کی تکمیل یہ ہے کہ اشرف الموجودات حق سبحانہ کو مع صفات خصوصاً صفت اقامۃ حشر و نشر جزاء و سزا جانے۔ دوسری قوت عملیہ اس کی تکمیل یہ ہے کہ خالق کی تعظیم و عبادت کے بعد خلق کی نفع رسانی اس لئے اعلان عام کے طور پر فرماتا ہے کہ خواہ کوئی یہودی ہو خواہ نصرانی خواہ مسلمان خواہ صابی جو ان دونوں قوتوں کی تکمیل کرے گا (اول کی طرف من آمن باللّٰہ والیوم الاخر میں اور دوسری کی طرف وعمل صالحاً میں اشارہ کیا) وہ نجات کے دونوں حصوں کو حاصل کرے گا۔ اول یہ کہ اس کو وہاں کے عقوبات سے کچھ خوف نہ ہوگا۔ دوم یہ کہ وہاں کے نعماء کے مقابلہ میں دنیا کی نعمتیں ہاتھ سے چھن جانے پر کچھ حزن نہ کرے گا۔ چونکہ اس تکمیل کا نام اسلام ہے اس لئے ان کے مقابلے میں نجات کا انحصار اسلام پر کرنا بہت ٹھیک بات ہے۔ اس کے بعد یہود کی قدیم سرکشی بیان فرما کر یہ بات بتلاتا ہے کہ جو ایسی سرکش اور گمراہ قوم ہو اور اس گمراہی کو تسلیم بھی کرتی ہو نبی معہود کی اطاعت نہ کرے اور اپنی سرکشی میں نجات کا دعویٰ کرے بایں خواری توقع ملک داری کا مضمون ہے اور وہ قدیم سرکشی یہ ہے لقد اخذنا یعنی باوجود یکہ بنی اسرائیل سے عہد لے لیا تھا اس پر پے در پے انبیاء بھی بھیجتے رہے مگر جب کسی نے ان کے برخلاف کہا تو اس کے قتل و تکذیب کے درپے ہوگئے جیسا کہ زکریا و یحییٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) کے ساتھ کیا اور لطف یہ ہے کہ باوجود اس قتل و تکذیب کے صرف نسل یعقوب و ابراہیم سے ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ ان پر کوئی بلا نازل نہ ہوگی۔ اصل یہ ہے کہ وہ اندھے بہرے ہوجاتے تھے۔ پھر خدا ان کو کسی نبی کی معرفت متنبہ کرتا تھا۔ ثم تاب اللّٰہ علیہم مگر چند روز بعد پھر وہ اندھے بہرے ہوجاتے تھے نہ حق کو دیکھتے تھے نہ کسی حق گو کی سنتے تھے۔ یہ خدا کا بڑا قہر اور باعث ہلاکت دارین ہے۔
Top