Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 26
قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا١ۚ لَهٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَبْصِرْ بِهٖ وَ اَسْمِعْ١ؕ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ١٘ وَّ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا
قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا لَبِثُوْا : کتنی مدت وہ ٹھہرے لَهٗ : اسی کو غَيْبُ : غیب السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَبْصِرْ بِهٖ : کیا وہ دیکھتا ہے وَاَسْمِعْ : اور کیا وہ سنتا ہے مَا لَهُمْ : نہیں ہے ان کے لئے مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مِنْ وَّلِيٍّ : کوئی مددگار وَّلَا يُشْرِكُ : اور شریک نہیں کرتا فِيْ حُكْمِهٖٓ : اپنے حکم میں اَحَدًا : کسی کو
تو کہہ اللہ خوب جانتا ہے جتنی مدت ان پر گزری اسی کے پاس ہیں چھپے بھید31 آسمانوں اور زمین کے کیا عجیب دیکھتا اور سنتا ہے  کوئی نہیں بندوں پر اس کے سوائے مختار32 اور نہیں شریک کرتا اپنے حکم میں کسی کو
31:۔ ثمرہ واقعہ :۔ اصحاب کہف کے واقعہ سے مشرکین کو ان کے غیب داں اور مختار ہونے کا شبہہ ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے واقعہ بیان کر کے اس کے ہر پہلو سے مشرکین کے شبہہ کو رد فرمایا۔ اب آخر میں پورے واقعہ کا ثمرہ اور نتیجہ صراحت سے بیان فرما دیا کہ اس واقعہ کی تفصیل سے ثابت ہوا۔ کہ اصحاب کہف نہ غیب داں ہیں نہ مالک و مختار، عالم الغیب بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مالک و مختار بھی وہی ہے۔ ” لہ “ خبر کو مقدم کر کے حصر کے ساتھ دعوی فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور کسی کو نہیں۔ ” ابصر بہ واسمع “ یہ دونوں فعل تعجب کے صیغے ہیں یعنی وہ ایسا دیکھنے والا اور ایسا سننے والا ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی چیز اور کوئی بات اس کے علم سے باہر اور اس سے پوشیدہ نہیں۔ یہاں تک نتیجے کا ایک جزو بیان ہوا۔ کہ غیب داں صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اصحاب کہف غیب داں نہیں ہیں۔ 32:۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) ” ولی “ کا ترجمہ لفظ مختار سے کرتے ہیں۔ یہ نتیجہ کے دوسرے جزو کا بیان ہے یعنی ساری مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کارساز اور مختار نہیں اللہ ہی سب کا مددگار اور کارساز ہے اور اس نے کسی کو مختار نہیں بنایا۔ نہ اصحاب کہف کو نہ کسی اور کو جیسا کہ مشرکین نے سمجھ رکھا تھا۔ ” ولا یشرک فی حکمہ احدا “ اللہ تعالیٰ اپنے اختیار و تصرف اور اپنے حکم و قضا میں منفرد و لا شریک ہے۔ اور کوئی اس کا شریک نہیں نہ کوئی نبی یا ولی نہ کوئی فرشتہ یا جن اور نہ اصحاب کہف انہ تعالیٰ ھوالذی لہ الخلق والامر الذی لا معقب لحکمہ و لیس لہ وزیر ولا نصیر ولا شریک ولا مشیر تعالیٰ و تقدس (ابن کثیر ج 3 ص 80) ۔ بعض مفسرین نے حکم سے علم غیب مراد لیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب میں کسی کو شریک نہیں کرتا وقیل الحکم ھھنا بمعنی علم الغیب ای لا یشرک فی علم غیبہ احدا (مظہری ج 6 ص 28) اس صورت میں یہ آیت علم غیب عطائی کی نفی پر دلیل ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے مختص علم غیب یعنی ماکان ومایکون کا کلی تفصیلی علم کسی کو عطا نہیں فرمایا۔
Top