Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور کوئی ان میں کہتا ہے اے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں خوبی اور آخرت میں خوبی اور بچا ہم کو عذاب دوزخ سے388
388 یہ حاجیوں کی دوسری قسم ہے۔ یہ لوگ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے دنیوی مقاصد کے لیے دعا کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ آخرت میں کامیابی اور جہنم کے عذاب سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اور حسنۃ سے دونوں جگہ دنیا وآخرت کی تمام نعمتیں مراد ہیں۔ والذی علیہ اکثر اھل العلم ان المراد بالحسنتین نعم الدنیا والاخرۃ وھذا وھ الصحیح (قرطبی ص 432 ج 2) یہ گروہ مومنین کا ہے جو حج کے موقع پر اللہ سے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی نمام نعمتیں مانگتے ہیں ا۔ ان کا مطمع نظر صرف دنیا ہی نہیں ہوتی اور یہی مومن کی شان ہونی چاہئے بلکہ مومن کا اصل مقصد تو طلب آخرت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے دنیوی منافع حاصل کرنے کی بھی اجازت ہے بشرطیکہ دنیا طلب آخرت کی راہ میں حائل نہ ہوجاوے۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا۔ یہ دوسری قسم کے حاجیوں کی جزاء ہے یعنی انہیں ان کی نیکی اور دعاء کی جزاء آخرت میں ملے گی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اولئک کا اشارہ دونوں فریقوں کی طرف ہو کہ فریقین میں سے ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا ملے گی (مدارک ص 81 ج 1، بحر ص 106 ج 3) وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ۔ وہ لوگوں کی کثرت کے باوجود تھوڑے سے وقت میں سب کا حساب لے لیگا۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ جلدی ہی حساب لینے والا ہے۔ کیونکہ قیامت قریب ہے اس لیے نیکی کی طرف توجہ کرو۔
Top