Maarif-ul-Quran - At-Tahrim : 8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا١ؕ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ١ۚ نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا١ۚ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ : توبہ کرو اللہ کی طرف تَوْبَةً : توبہ نَّصُوْحًا : خالص عَسٰى رَبُّكُمْ : امید ہے کہ تمہارا رب اَنْ يُّكَفِّرَ : دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيُدْخِلَكُمْ : اور داخل کردے گا جَنّٰتٍ : باغوں میں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : ان کے نیچے نہریں يَوْمَ : جس دن لَا يُخْزِي اللّٰهُ : نہ رسوا کرے گا اللہ النَّبِيَّ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى : ان کا نور دوڑ رہا ہوگا بَيْنَ : درمیان اَيْدِيْهِمْ : ان کے دونوں ہاتھوں کے (ان کے آگے آگے) وَبِاَيْمَانِهِمْ : اور ان کے دائیں ہاتھ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہہ رہے ہوں گے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَتْمِمْ لَنَا : تمام کردے ہمارے لیے نُوْرَنَا : ہمارا نور وَاغْفِرْ لَنَا : اور بخش دے ہم کو اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
اے ایمان والو ! توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ ان کی روشنی دوڑتی ہے ان کے آگے اور ان کے داہنے کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہم کو ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو بیشک تو سب کچھ کرسکتا ہے
خلاصہ تفسیر
(ان آیات میں دوزخ سے بچنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہی اہل و عیال کو بتلا کر جہنم کی آگ سے بچانے کا طریقہ ہے وہ یہ ہے) اے ایمان والو اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو (یعنی دل میں گناہ پر کامل ندامت ہو اور آئندہ اسکے نہ کرنے کا پختہ قصد ہو اس میں تمام احکامدین فرائض واجبات بھی داخل ہوگئے کہ ان کا چھوڑنا گناہ ہے اور تمام محرمات ومکروہات بھی آگئے کہ ان کا کرنا گناہ ہے) امید (یعنی وعدہ) ہے کہ تمہارا رب (اس توبہ کی بدولت) تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جنکے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور یہ اس روز ہوگا) جس دن کہ اللہ نبی ﷺ کو اور جو مسلمان (ایمان اور دین کی رو سے) ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا (جیسا کہ سورة حدید میں گزرچکا ہے اور وہ) یوں دعا کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے اس نور و اخیر تک رکھئے (یعنی راستہ میں گل نہ ہوجاوے) اور ہماری مغرفت فرما دیجئے آپ ہر شئے پر قادر ہیں (اور اس دعا کی وجہ یہ ہوگی کہ قیامت میں ہر مومن کو کچھ نہ کچھ نور عطا ہوگا جس وقت پل صراط کے پاس پہنچ کر منافقین کا نور بجھ جاوے گا جسکا ذکر سورة حدید میں آچکا ہے اس وقت مومنین یہ دعا کریں گے کہ منافقین کی طرح کہیں ہمارا نور بھی سلب نہ ہوجائے (کذافی الدر المنثور عن ابن عباس) اے نبی ﷺ کفار (سے بذریعہ تلوار) اور منافقین سے (بذریعہ زبان وبیان حجت) جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے (دنیا میں تو یہ اس سزا کے مستحق ہوئے) اور (آخرت میں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے (آگے اس کا بیان ہے کہ آخرت میں ہر شخص کو اپنا ہی ایمان کام آئے گا۔ کافر کو کسی ان کے خویش و عزیز کا ایمان عذاب سے نہ بچائے گا، اسی طرح مومن کے خویش و عزیز کافر ہوں تو مومن کو اس کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا) اللہ تعالیٰ کافروں (کی عبرت) کے لئے نوح کی بی بی اور لوط کی بی بی کا حال بیان فرماتا ہے، وہ دونوں ہمارے خاص بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں سو ان عورتوں نے ان دونوں بندوں کا حق ضائع کیا (یعنی بوجہ ان کے نبی ہونے کے ان کا حق یہ بھی تھا کہ ان پر ایمان لاتیں اور دینی احکام میں ان کی اطاعت کرتیں جو انہوں نے نہیں کی) تو وہ دونوں نیک بندے اللہ کے مقابلے میں ان کے ذرا کام نہ آسکے اور ان دونوں عورتوں کو (بوجہ کافر ہوجانے کے) حکم ہوگیا کہ تم دونوں بھی دوسرے جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ (یہاں تک کافروں کی عبرت کے لئے واقعہ بیان کیا گیا تھا، آگے مسلمانوں کے اطمینان کے لئے فرمایا) اللہ تعالیٰ مسلمانوں (کی تسلی) کے لئے فرعون کی بی بی (حضرت آسیہ) کا حال بیان کرتا ہے جبکہ ان بی بی نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنائے اور مجھ کو فرعون (کے شر) سے اور اسکے عمل (کفر کے ضرر اور اثر) سے محفوظ رکھئے اور مجھ کو تمام ظالم (یعنی کافر) لوگوں (کے ظاہری اور باطنی ضرر) سے محفوظ رکھئے اور (نیز مسلمانوں کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ) عمران کی بیٹی حضرت مریم کا حال بیان کرتا ہے جنہوں نے اپنے ناموس کو (حرام اور حلال دونوں سے) محفوظ رکھا، سو ہم نے ان کے چاک گریبان میں (بواسطہ جبرئیل علیہ السلام) اپنی روح پھونک دی اور انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کی (جو ملائکہ کے ذریعے پہنچے تھے) اور اس کی کتابوں کی (جن میں تورات و انجیل بھی ہیں) تصدیق کی (یہ بیان ہے ان کے عقائد کا) اور وہ اطاعت والوں میں سے تھیں (یہ بیان ہے ان کے اعمال کا)
معارف و مسائل
تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا . توبہ کے لفظی معنے لوٹنے اور رجوع ہونے کے ہیں، مراد گناہوں سے لوٹنا ہے۔ اور اصطلاح قرآن وسنت میں توبہ اس کا نام ہے کہ آدمی اپنے پچھلے گناہ پر نادم ہو اور آئندہ اس کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم کرے۔ اور نصوح کو اگر مصدر نصح اور نصیحت سے لیا جائے تو اس کے معنے خالص کرنے کے ہیں، اور مصدر نصاحت سے مشتق قرار دیں تو اس کے معنے کپڑے کو سینے اور جوڑ لگانے کے ہیں۔ پہلے معنے کے اعتبار سے نصوح کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ریا اور نمود سے خالص ہو۔ محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور خوف عذاب سے گناہ پر نادم ہو کر اس کو چھوڑ دے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے نصوح اس مطلب کے لئے ہوگا کہ اعمال صالحہ کا لباس جو گناہ کی وجہ سے پھٹ گیا ہے تو یہ اسکے خرق یعنی پھٹن کو جوڑنے والی ہے۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ آدمی اپنے گزشتہ عمل پر نادم ہو اور پھر اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ ارادہ اور عزم رکھتا ہو۔ اور کلبی نے فرمایا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے اور دل میں نادم ہو اور اپنے بدن اور اعضاء کو آئندہ اس گناہ سے روکے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے سوال کیا گیا کہ توبہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جس میں چھ چیزیں جمع ہوں۔ (1) اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت (2) جو فرائض وواجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں ان کی قضا (3) کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا تو اسی کی واپسی (4) کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی تو اس سے معافی (5) آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم و ارادہ (6) اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے (مظہری)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جو شرائط توبہ بیان فرمائی ہیں وہ سبھی کے نزدیک مسلم ہیں۔ بعض نے مختصر بعض نے مفصل بیان کردیا ہے۔
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُم، آلایة لفظ عسیٰ کا ترجمہ امید ہے اور یہاں مراد اس سے وعدہ ہے مگر اس وعدہ کو بلفظ امید تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ توبہ ہو یا انسان کے دوسرے اعمال صالحہ ان میں سے کوئی بھی جنت و مغفرت کی قیمت نہیں اور نہ اللہ کے ذمہ ازروئے انصاف یہ لازم آتا ہے جو عمل صاحل کرے اس کو ضرور جنت ہی میں داخل کرے کیونکہ اعمال صالحہ کا ایک بدلہ تو ہر انسان کو دنیوی زندگی میں عطا ہونے والی نعمتوں سے مل چکا ہے۔ اس کے بدلے میں ازروئے قانون وقاعدہ جنت ملنا ضروری نہیں وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام ہی پر موقوف ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کسی کو صرف اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا آپکو بھی، آپ نے فرمایا ہاں مجھے بھی جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت کا معاملہ نہ فرماویں (بخاری ومسلم) ازمظہری
Top