Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 69
قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا
قَالَ : اس نے کہا سَتَجِدُنِيْٓ : تم مجھے پاؤگے جلد اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہا اللہ نے صَابِرًا : صبر کرنے والا وَّلَآ اَعْصِيْ : اور میں نافرمانی نہ کروں گا لَكَ : تمہارے اَمْرًا : کسی بات
موسیٰ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا،
118۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے صبروبرداشت کا وعدہ :۔ سو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ ” آپ مجھے انشاء اللہ صابر ہی پائیں گے “ اور میں بہرحال صبر ہی سے کام لونگا ان شاء اللہ۔ ہاں اگر کوئی بھول چوک ہوجائے تو معاف کردینا۔ کیونکہ بھول چوک قابل گرفت چیز نہیں ہوتی بلکہ اس پر عفودرگزر سے کام لیا جاتا ہے۔ لہذا آپ اس طرح کی کسی بھول چوک پر میری گرفت نہیں فرمانا اور میرے بارے میں سختی سے کام نہیں لینا۔ میں بہرحال صبر ہی سے کام لونگا اور آپ کی کوئی نافرمانی نہیں کرونگا اور ایسے کاموں پر بھی کچھ نہیں کہوں گا جو بظاہر منکر ہوں گے۔ کیونکہ مجھے یہ اطمینان اور یقین ہے کہ جب مجھے میرے رب نے آپ کی صحبت اور معیت کا حکم دیا ہے تو آپ ایسا کوئی کام بہرحال نہیں کرینگے جو مقتضائے شریعت کیخلاف ہو۔ (معارف وغیرہ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کلام دراصل جواب تھا حضرت خضر کی اس بات کا۔ انک لن تستطیع معی صبرا یعنی ” آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے “۔ جو بظاہر اگرچہ بڑے سیدھے سادھے عام فہم الفاظ پر مشتمل ہے لیکن اس میں بڑے اہم درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ مثلا آنجناب کی تواضع کا یہ مظہر و نمونہ کہ آپ اتنے بڑے اولوالعزم رسول ہونے کے باوجود حضرت خضر کی اتباع اور ان کے ساتھ رہنے کی اس طرح اجازت مانگتے ہیں جو ادب اور تواضع کا ایک اعلیٰ اور عمدہ نمونہ ہے۔ نیز علی ان تعلمنی، کے کلمات کریمہ میں حضرت خضر کو عالم اور معلم اور اپنے آپ کو متعلم قرار دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ اور مماعلمت کے کلمہ سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ کو جو علم ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔ الھی :۔ انت ربی، خلقتنی وانا علی عہدک ووعدک ما استطعت ولا حول ولا قوہ الا بک، علیک توکلت، والیک انیب، فاغفربی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم انت المستعان وعلیک التکلان، فی کل حین وان، فخذنی بناصیتی الی مافیہ حبک والرضابکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یا ذا الجلال والاکرام، یامن رحمتہ وسعت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ، سبحانہ وتعالیٰ ۔ 15 شوال 1428 ھ 25 اکتوبر 2007 ء دبئی ، متحدہ عرب امارات والحمد للہ رب العالمین۔:
Top