Tafseer-e-Madani - An-Noor : 53
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ اَمَرْتَهُمْ لَیَخْرُجُنَّ١ؕ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا١ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی زور دار قسمیں لَئِنْ : البتہ اگر اَمَرْتَهُمْ : آپ حکم دیں انہں لَيَخْرُجُنَّ : تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے قُلْ : فرما دیں لَّا تُقْسِمُوْا : تم قسمیں نہ کھاؤ طَاعَةٌ : اطاعت مَّعْرُوْفَةٌ : پسندیدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خبر رکھتا ہے بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور منافقوں کے بارے میں مزید سنو کہ یہ لوگ قسمیں کھاتے ہیں اللہ کے پاک نام کی بڑے زور شور سے کہ اگر آپ ان کو گھر بار چھوڑ دینے کا بھی حکم دیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے سو ان سے کہو کہ قسمیں نہ کھاؤ فرمانبرداری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں بلاشبہ اللہ کو ان سب کاموں کی پوری خبر ہے جو تم لوگ کر رہے ہوف 3
112 منافقوں کی ایک عمومی نشانی جھوٹی قسمیں کھانا ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے منافقوں کی نفسیات کا ایک عمومی مظہر و نمونہ سامنے آتا ہے۔ یعنی زور و شور سے قسمیں کھانا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو یہ منافق لوگوں کی نفسیات کا ایک عمومی مظہر ہے کہ وہ قسمیں زیادہ کھاتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی نفاق کی وجہ سے خود اپنے آپ کو بےاعتبارا سمجھتے ہیں ۔ والعیا ذباللہ العظیم ۔ سو ایسے لوگ پیغمبر کے سامنے بڑی زوردار اور کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ آپ ﷺ اگر ہمیں جہاد کیلئے نکلنے کو اور اپنا گھربار چھوڑنے کو کہیں گے تو ہم ضرور بالضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ مگر جب جہاد میں نکلنے کا موقعہ آتا تو یہ لوگ اپنی ایسی کڑی اور سخت قسموں کے باوجود جھوٹے نکلتے۔ سو ایمان و یقین سے محرومی اور منافقت ۔ والعیاذ باللہ ۔ ہر خیر سے محرومی ہے۔ ایسے لوگ خود اپنی نظروں میں بھی جھوٹے ہوتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 113 منافقوں کے منافقانہ دعو وں کا ایک نمونہ و مظہر : سو ان لوگوں کا دعویٰ تھا کہ اگر آپ ہمیں گھر بار چھوڑنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ روایات میں ہے کہ جب منافقین کے اس کردار اور اعراض کا حال بیان ہوا تو انہوں نے آ کر آنحضرت ﷺ کے سامنے قسمیں کھانی شروع کردیں کہ صاحب ! ہم ایسے نہیں بلکہ ہم تو ایسے اور ایسے ہیں کہ اگر آپ ﷺ ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے گھروں اپنے مال و دولت اور اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر نکل پڑیں گے۔ اور اگر جہاد کا حکم ہوگا تو ہم سب سے بڑھ کر اس میں حصہ لیں گے۔ تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (روح المعانی، ابن کثیر، فتح القدیر وغیرہ) ۔ تو اس کے جواب میں ان سے فرمایا گیا کہ زیادہ قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اصل مقصود سچی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ وہ اگر نہیں تو محض زبانی کلامی دعوے کرنے اور جھوٹی قسمیں کھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خالی خولی اور جھوٹی قسمیں کھاکر آخر تم لوگ کب تک اپنے عمل و کردار پر پردہ ڈالے رہ سکو گے ؟ اور اس طرح تم لوگ اپنی منافقت کو کب تک چھپائے رکھ سکو گے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ کفر ونفاق کے ہر شائبے سے ہمشہ محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 114 اصل مقصود اطاعت و فرمانبرداری ہے : اور سچی اطاعت و فرمانبرداری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ سو اخلاص والی جو اطاعت و فرمانبرداری مطلوب ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے اور منافقت والی جس اطاعت کا دعویٰ و اظہار تم لوگ کر رہے ہو وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ اس لئے جھوٹی قسمیں کھا کر یقین دلانے کی ضرورت نہیں بلکہ تم لوگ اپنے عقیدئہ و باطن کی اصلاح کرو جو کہ اصل مطلوب ہے۔ ورنہ قسمیں عمل کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔ اور سچی اطاعت و فرمانبرداری میں خود تمہارا ہی بھلا ہے کہ یہ چیز انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی ہے ورنہ ڈانواں ڈول اطاعت اور دو رخی پالیسی پر عمل کرنے والے شخص کو مثال اس شخص کی سی ہے جو بیک وقت دو کشتیوں پر سوار ہونا چاہتا ہے۔ اور ایسے شخص کا انجام بہرحال ہلاکت و غرقابی ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ فکر وعمل کے ہر انحراف سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔ 115 اللہ تعالیٰ سے کسی کا کوئی عمل چھپ نہیں سکتا : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ پوری طرح باخبر ہے تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کر رہے ہو۔ کہ تمہارے خبایا و نوایا میں سے کوئی بھی چیز اس سے اوجھل نہیں ہے۔ پس تم جھوٹی قسمیں کھانے کی بجائے اس سے اپنا معاملہ ٹھیک کرو کہ یہی اصل مقصود ہے کہ وہاں محض ظاہر داری کسی بھی طرح نہیں چل سکے گی۔ سو جھوٹی قسمیں کھاکر تم لوگ دنیا والوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہو مگر اس علام الغیوب سے اپنے عمل و کردار کو کس طرح چھپا سکو گے جو تمہارے ظاہر و باطن کو ایک برابر جانتا ہے۔ اور اپنے کیے کرائے کا حساب تم نے اسی کے یہاں دینا ہے۔ اور یہ ایک ایسی اہم اور بنیادی حقیقت ہے کہ اگر یہ صحیح طور پر انسان کے قلب و باطن میں راسخ و جاگزیں ہو تو اس کی زندگی میں خود بخود انقلاب آسکتا ہے اور وہ بہتر سے بہتر کی طرف بڑھتا اور ترقی کرتا چلا جاتا ہے ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر ثابت و مستقیم رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top