Tafseer-e-Madani - Yaseen : 34
وَ جَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ وَّ فَجَّرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِۙ
وَجَعَلْنَا : اور بنائے ہم نے فِيْهَا : اس میں جَنّٰتٍ : باغات مِّنْ : سے ۔ کے نَّخِيْلٍ : کھجور وَّاَعْنَابٍ : اور انگور وَّفَجَّرْنَا : اور جاری کیے ہم نے فِيْهَا : اس میں مِنَ : سے الْعُيُوْنِ : چشمے
اور اس میں ہم نے طرح طرح کے باغ پیدا کردیئے کھجوروں اور انگوروں (وغیرہ) کے اور پھوڑ نکالے ہم نے اس میں قسما قسم کے چشمے1
35 نظام ربوبیت کا تقاضا شکر و عبادت خداوندی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس مردہ پڑی ہوئی زمین کو ہم زندہ کرتے ہیں۔ پھر اس میں طرح طرح کے غلے اور کھجوروں، انگوروں وغیرہ کے قسما قسم کے باغات پیدا کرتے ہیں اور زمین کے اندر طرح طرح کے چشمے پھوڑ نکالتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ کھائیں اس کے پھلوں سے اور اس کی قسما قسم کی پیداوار۔ یعنی یہ سب کچھ تمہاری روزی رسانی کے لئے ہے تاکہ تم کھا کر اس واہب مطلق کا شکر ادا کرو جس نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے اور اس کی بندگی کو بجا لاؤ۔ ولنعم ما قال العارف الشیرازی ۔ ابرو باد ومہ و خورشید و فلک درکاراند ۔ تاتو نانے بکف آری و بغفلت نخوری ۔ ایں ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرمانبردار۔ شرط انصاف نہ باشد تو فرماں نہ بری ۔ پھر کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ جس ربِّ قدیر نے تمہاری جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایسے ایسے اور اتنے اتنے انتظامات فرمائے ہوں وہ تمہاری روحانی غذا کا کوئی انتظام نہ فرمائے جبکہ جسم و روح میں اصل چیز روح ہی ہے نہ کہ جسم ؟ تو پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری جسمانی پیاس دور کرنے کے لئے تو زمین میں چشمے بہا دے مگر تمہاری روحانی پیاس کے ازالے کے لئے کوئی انتظام نہ فرمائے ؟ پس وحی کی اس مقدس و رحمت بھری بارش کے تم کہیں زیادہ محتاج ہو۔ اور اس کا انتظام اس نے اپنی اس کتاب حکیم اور وحی مبین کے ذریعے فرمایا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پھر یہیں سے تم لوگ یہ بھی سوچو کہ ان نعمتوں کے استعمال کرنے کے بعد آگے لوگ دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو ان نعمتوں کو استعمال کرکے ان کے بخشنے والے کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کے بندے بن کر رہتے ہیں اور زندگی بھر اس کی رضا و خوشنودی کی طلب و تلاش میں رہتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو ان تمام نعمتوں سے مسلسل و لگاتار مستفید و فیضیاب ہوتے رہنے کے باوجود نہ اس خالق ومالک کو یاد کرتے ہیں جس نے انکو ان گوناگوں نعمتوں سے نوازا ہے اور نہ اس کے حقِّ بندگی کی پروا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ بغاوت و سرکشی کی زندگی گزارتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو دنیا میں یہ دونوں قسم کے لوگ پہلے بھی پائے جاتے تھے اور آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اور سنت ابتلاء و آزمائش کے تقاضوں کے مطابق آئندہ بھی پائے جاتے رہیں گے۔ تو کیا یہ دونوں قسم کے لوگ ایک برابر ہوسکتے ہیں ؟ ۔ { اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ } ۔ (القلم : 35-36) ۔ اور جب ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر لازماً ایک دن ایسا آنا چاہیئے جبکہ ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو تاکہ نیکوکاروں اور فرمانبرداروں کو ان کی نیکی اور فرمانبرداری کا صلہ ملے اور نافرمانوں اور سرکشوں اور باغیوں کو انکے کیے کرائے کی سزا ملے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوں۔ سو وہی دن قیامت کا دن ہے جو کہ یوم الفصل ہے اور جو دنیا کے اس دار الامتحان کے بعد آئے گا۔ سو عبرتوں اور حکمتوں بھری اس زمین میں صحیح طور پر غور و فکر کرنے سے توحید، رسالت اور آخرت کے تینوں بنیادی عقیدوں کے بارے میں قوی اور روشن دلائل ملیں گے۔ لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ لوگ اس بارے صحیح طور سے سوچتے ہی نہیں۔ وہ یا تو اس کے ان فوائد و منافع کو دیکھتے ہوئے اس زمین کی پوجا کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مزید اوندھے اور اسفل السافلین ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور یا پھر وہ اس سے ملنے والے مادی فوائد و منافع میں زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھانے کی فکر و کوشش میں لگے ہیں اور دن رات اس سے طرح طرح کے خزانے نکالتے اور اس سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ لیکن وہ ظالم یہ نہیں سوچتے کہ یہ طرح طرح کے بےحد و حساب اور عظیم الشان فائدے اس زمین کے اندر رکھے کس نے ہیں ؟ اور اسکا ہم پر کیا حق بنتا ہے ؟ اور اس طرح وہ واہب مطلق کے نور معرفت اور اس کے حقِّ شکر کی ادائیگی سے قاصر اور محروم رہتے ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ ۔ { من ثمرہ } ۔ کی ضمیر مجرور کا مرجع " ارض " یعنی " زمین " ہے۔ اور اس کی طرف مذکر کی ضمیر کا رجوع " بلد طیب " کی تاویل کے اعتبار سے ہے۔ اور یہ اس لیے کہ بارش ہونے کو تو ہر خشک وتر اور ہر بنجر و زرخیز پر ہوتی ہے لیکن بارآور وہی زمین ہوتی ہے جو زرخیز ہوتی ہے۔ اسی مضمون کو سورة اَعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ۔ { وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِاِذْنِ رَبِّہ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا } ۔ ( الاعراف : 58) یعنی " جو زمین زرخیز ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اس رب کے اذن سے خوب اپچتی ہے اور جو زمین ناقص ہوتی ہے اس سے ناقص اور بیکار چیز ہی نکلتی ہے۔ بہرکیف زمین کے اس عظیم الشان بچھونے کے اندر عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت موجود ہیں لیکن ان لوگوں کے لیے جو اس میں صحیح طور پر اور صحیح زاویہ نگاہ سے غور کرتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ 36 شکر خداوندی پر ابھارنے والی ایک اہم تنبیہ و تذکیر : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اس کو انکے ہاتھوں نے نہیں بنایا "۔ یعنی ۔ { مَا عَمِلَتْ } ۔ میں " ما " نافیہ ہے۔ سو اس ارشاد کا مطلب اس صورت میں یہ ہوگا کہ یہ گوناگوں نعمتیں جو اس زمین میں پائی جاتی ہیں اور جن سے تم لوگ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں مسلسل اور لگاتار مستفید و فیضیاب ہوتے رہتے ہو اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہو، یہ تمہارے ہاتھوں کی کارفرمائی نہیں بلکہ یہ سب کچھ ایک ربِّ رحیم و کریم اور قدیر و حکیم کی قدرت و عنایت اور اس کی عطا و بخشش کا نتیجہ وثمرہ ہے جس سے اس نے انکو انکے کسی استحقاق کے بغیر اور تمہاری طرف سے اپیل و درخواست کے بغیر ازخود اپنے کرم بےپایاں سے نوازا ہے۔ جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم اس کے لیے سراسر شکر وسپاس بن جاؤ۔ سو اس کے باوجود اس سے منہ موڑنا اور اس کی ناشکری کرنا کیسی بےانصافی اور کتنا بڑا ظلم ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس طرح اس ارشاد میں شکر خداوندی پر ابھارنے والی ایک اہم تنبیہ و تذکیر ہے جبکہ اس میں دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ اس " ما " کو موصولہ قرا ردیا جائے، جس کی تائید ابن مسعود ؓ کی اس قراءت سے بھی ہوتی ہے جس میں ۔ { مِمَّا عَمِلَتْ } ۔ فرمایا گیا ہے۔ سو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ لوگ ان چیزوں سے بھی کھائیں جن کو یہ اپنے ہاتھوں سے خود تیار کرتے ہیں۔ یعنی زمین سے پیدا ہونے والی ان طرح طرح کی چیزوں سے آگے انسان اپنے کھانے اور استعمال کے لئے طرح طرح کے کھانے، مٹھائیاں اور جو دوسری کھٹی میٹھی اور نمکین وغیرہ بیشمار چیزیں تیار کرتا ہے۔ تاکہ ان سے وہ طرح طرح سے مستفید اور لطف اندوز ہوسکے۔ اور اسی طرح زمین کی پیداوار سے طرح طرح کی پوشاکیں بھی بناتے ہیں۔ سو ایک طرف تو زمین کے اندر ان بیشمار چیزوں کو پیدا کرنا جن میں طرح طرح کے ذائقے اور مزے بھی ہیں اور قسما قسم کے فوائد اور منافع بھی اور دوسری طرف انسان کے اندر ایسی صلاحیت اور قابلیت رکھ دینا کہ وہ قدرت کی پیدا کردہ ان اشیاء سے آگے طرح طرح کے سامان تیار کرے، قدرت کا کرم بالائے اور انعام پر انعام ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس سب کا عقلی اور فطری طور پر تقاضا یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خالق ومالک کیلئے سراپا شکر وسپاس بن جائے تاکہ اس طرح خود اس کا بھلا ہو۔ سو اس حقیقت کا تذکرہ اور اس کا احساس و ادراک جذبہ شکر کو ابھارتا ہے۔ اور جذبہ شکر وسپاس ہی دین کی اساس و بنیاد ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top