Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور کوئی ان میں ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے ہم کو دنیا میں (بھی) بہتری دے اور آخرت میں (بھی) بہتری، اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچائے رکھنا،746 ۔
746 یہ اشارہ انسانیت کے پسندیدہ طبقہ یعنی اہل ایمان کی جانب ہے، مومنین کی دعائیں، مناجاتیں، آرزوئیں، دنیا و آخرت دونوں کی فلاح و بہبود کی جامع ہوتی ہیں۔ (آیت) ” حسنۃ “ وہ طاعت ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ و بہتر ہے، اور اس کے اندر ہر قسم کی خیر و خوبی آگئی۔ ان حسنۃ نکرۃ فی بیان الدعاء فھو محتمل لک حسنۃ من الحسنات علی البدل (قرطبی) والحسنۃ الکاملۃ فی الدنیا ما یشمل جمیع حسنا تھا (روح) دنیا میں (آیت) ” حسنۃ توفیق خیر ہوئی، اور آخرت میں (آیت) ” حسنۃ “ ثمرۂ خیر۔ والذی علیہ اکثر اھل العلم ان المراد بالحسنتین نعم الدنیا والاخرۃ وھذا ھو الصحیح فان اللفظ یقتضی ھذا کلہ (قرطبی) ایسی جامع وہمہ گیر دعا کی نظیر سے ادیان وملل کے ملل کے صحیفے خالی ہیں۔ رسول مقبول ﷺ خود اس دعا کی کثرت رکھتے تھے، کان اکثر دعوۃ یدعوبھا النبی ﷺ یقول اللھم اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (بخاری ومسلم عن انس) مال، اولاد، صحت، اطمینان وغیرہ جو چیزیں بھی تحصیل خیر میں معین ہوسکتی ہیں۔ خواہ بظاہر کیسی ہی دنیوی اور مادی ہوں، سب مومن کا مقصود ومطلوب بن سکتی ہیں۔ البتہ خود دنیا ہرگز کسی مومن کا مدعا اور مقصود نہیں بن سکتی۔ آیت کی ترکیب خوب نظر میں رہے۔ (آیت) ” اتنا “ کا مفعول صرف (آیت) ” حسنۃ “ ہے۔ یعنی جس چیز کی طلب و تمنا کی جا رہی ہے وہ (آیت) ” حسنۃ “ یا بہتری ہے، (آیت) ” فی الدنیا “ اور فی الاخرۃ “ صرف ظرف یا محل ہیں۔ ترکیب میں یہ مفعول یا معنی کے لحاظ سے مقصود کسی طرح بھی نہیں ہوسکتے۔ مراد محض یہ ہے کہ ہمیں تو آپ کے دربار سے صرف بھلائی یا بہتری درکار ہے، دنای میں ہو تو بھی اور آخرت میں ہو تو بھی، مزید تفسیر یہ کہ دنیا میں ہمیں اعمال خیر عنایت ہوں، اور آخرت میں ثمرات خیر، بعض نادان اور سطحی دماغ والے اہل قلم نے آیت سے یہ عجیب و غریب نتیجہ نکالا ہے کہ آخرت کی طرح دنیا بھی مومن کا مقصود بن سکتی ہے، بلکہ قرآن خود طلب دنیا کی تعلیم وترغیب دیتا ہے ! تعالیٰ اللہ علوا کبیر ا۔ مغالطہ کی قلعی اوپر کھولی جاچکی ہے۔ مادہ پرست قوموں کی دنیا طلبی اور دنیا پسندی سے مرعوب ہو کر خود مسلمانوں کو طلب دنیا کی تعلیم دینا بلکہ اسے قرآنی تعلیم قرار دینا خدمت اسلام کی عجیب و غریب صورت ہے !
Top