Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 70
لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
لِّيُنْذِرَ : تاکہ ( آپ) ڈرائین مَنْ : جو كَانَ : ہو حَيًّا : زندہ وَّيَحِقَّ : اور ثابت ہوجائے الْقَوْلُ : بات (حجت) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : جمع کافر
تاکہ اس شخص کو جو زندہ ہو ہدایت کا رستہ دکھائے اور کافروں پر بات پوری ہوجائے
لینذر من کان حیًا ویحق القول علی الکفرین تاکہ ایسے شخص کو ڈرائے جو زندہ ہو اور کافروں پر (عذاب کی) حجت ثابت ہوجائے۔ یعنی ہم نے محمد کو رسول بنایا اور قرآن نازل کیا ‘ اس غرض سے کہ مؤمنوں کو یہ رسول یا قرآن ڈرائے۔ زندہ سے مراد مؤمن ہے ‘ کیونکہ مؤمن ہی کا دل زندہ ہوتا ہے ‘ وہی حقائق اشیاء سے صحیح طور پر واقف ہوتا ہے۔ حیات لازوال ایمان سے ہی حاصل ہوتی ہے ‘ ایمان کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے۔ کافر تو مردہ ہوتا ہے ‘ اس کو قرآن سے کوئی فائدہ اور زندگی کا نفع حاصل نہیں ہوتا۔ اس کو اچھے کا ‘ برے سے امتیاز نہیں ہوتا۔ وہ پتھروں کی پوجا اور شیطان کی پیروی کو اچھا سمجھتا ہے اور خالق کائنات کی عبادت اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ناصح کے اتباع کو براجانتا ہے ‘ اسلئے آخرت میں اس کی حالت ایسی ہوگی کہ نہ مرے ‘ نہ جیے گا۔ یہ بتانے کیلئے کہ کافر حقیقت میں مردہ ہے ‘ زندوں کے مقابلے میں الکافرین کا لفظ استعمال کیا۔ یَحِقَّ الْقَوْلِ ‘ القول سے مراد ہے کلمۂ عذاب (عذاب کی حجت) ۔
Top