Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور (اے پیغمبر ! ﷺ آپ بیان کردیں ان لوگوں کے سامنے مثال دو شخصوں کی کہ ہم نے بنائے ان میں سے ایک کے لیے دو باغ انگوروں سے اور گھیر لیا ہم نے ان دونوں کو کھجوروں کے درختوں کے ساتھ اور بنائی ہم نے انکے درمیان کھیتی ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ بیان فرمایا ، پھر وحی الہی کی قطعیت کو بیان فرما کر اس کے اتباع کا حکم دیا ، کافر ، مشرک ، مشرک مغرور اور متکبر لوگوں کا رد فرمایا کمزور ایمانداروں کو حقیر سمجھنے والوں کی مذمت کی اور پیغمبر اسلام کو حکم دیا کہ آپ ان لوگوں کا رد فرمایا کمزور ایمانداروں کو حقیر سمجھنے والوں مذمت کو مذمت کی اور پیغمبر اسلام کو حکم دیا کہ آپ ان لوگوں کی مجلس اختیار کریں جو صبح اور پچھلے پہر اپنے پروردگار کو یاد کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں ، فرمایا ان پر اپنی نگاہ شفقت رکھیں ، آپ ان لوگوں کی بات نہ مانیں جنہیں اللہ نے اپنی یاد سے غافل پایا ہے ، جو اپنی خواہشات پر چلتے ہیں اور ان کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے ایمان لانا یا نہ لانا انسانوں کی اپنی مرضی پر موقوف ہے جو ایمان لائے گا اس کو اچھا بدلہ نصیب ہوگا اور جو کفر کا راستہ اختیار کرے گا ، اس کے لیے اللہ نے سزا بھی تیار کر رکھی ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہوگئی جسے پردوں نے گھیر رکھا ہوگا ، ظالموں کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا جو پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہوگا ، اس کے بعد اللہ نے ایمان لانے کے بعد نیک اعمال انجام دینے والے لوگوں کے متعلق فرمایا کہ ان کو ان کے اعمال کا بہتر بدلہ ملے گا ، خدا تعالیٰ انہیں ایسے باغوں میں جگہ دے گا ، جو رہائش کے قابل ہوں گے اور انکے سامنے نہریں جاری ہوں گی ، زیب وزینت کے لیے انہیں سونے کے کنگن اور باریک و دبیز ریشم کا لباس پہنایا جائے گا وہ لوگ نہایت ہی عمدہ تختوں پر بیٹھ کر آرام کریں گے ۔ کنگن کا ذکر حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ اگر جنت کا ادنی سے ادنی زیور اس دنیا میں ظاہر کردیا جائے تو وہ دنیا کے تمام اعلی سے اعلی زیورات پر غالب آجائے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ جنتیوں کے کنگن ایسے نفیس ہوں گے کہ اگر ان میں سے صرف ایک کنگن اس دنیا میں ظاہر کردیا جائے تو اس کے مقابلے میں سورج کی روشنی ماند پڑجائے ، ترمذی شریف کی روایت (1) (ترمذی ص 255 و بخاری ص 392 ج 1) (فیاض) میں آتا ہے کہ جنت کی عورتوں کا ایک دوپٹہ ” خیر من الدنیا وما فیھا “ دنیا اور اس کے تمام خزانوں سے قیمتی ہوگا ۔ (دو شخصوں کی مثال) کفار کی سزا اور اہل جنت کے انعامات کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومن اور کافر دو شخصوں کی مثال بیان فرمائی ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جن دو شخصوں کی مثال بیان کی جارہی ہے ، یہ واقع میں بھی ہو سکتے ہیں اور محض تمثیل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بعض چیزیں تمثیل کے ساتھ بھی سمجھائی ہیں ، مثلا داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ میں ننانوے اور سو دنبیوں کا قصہ ایک تمثیل بات ہے ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جن دو شخصوں کی مثال یہاں بیان کی گئی ہے ان کا نمونہ خود مکہ میں موجود تھا ، ایک دولت مند کافر تھا جب کہ اس کا مومن بھائی غریب آدمی تھا ، بعض فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے میں ایک دولتمند شخص فوت ہوگیا جس نے اپنے پیچھے دو لڑکے چھوڑے ، دونوں وارثان نے باپ کی جائیداد تقسیم کرلی اور ہر ایک کے حصے میں چار چار ہزار دینار آئے ان میں سے ایک بھائی کافر تھا جس نے اپنی رقم سے دو باغ خریدے جن کی مثال اللہ نے اس مقام پر بیان فرمائی ہے ، دوسرا شخص مومن تھا ، اس نے اپنا سارا حصہ اللہ کی راہ میں صرف کردیا اس کا ذکر بھی اگلے درس میں آرہا ہے ۔ (دو باغوں کا مالک) ارشاد ہوتا ہے ، اے پیغمبر ! ﷺ (آیت) ” واضرب لھم مثلا رجلین “۔ آپ ان لوگوں کے سامنے دو شخصوں کی مثال بیان کریں ان مشرکین مکہ اور مشرکین عرب کو یہ مثال سنائیں تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں ، فرمایا ان دو آدمیوں میں سے (آیت) ” جعلنا لاحدھما جنتین من اعناب “۔ ایک کے لیے ہم نے انگوروں کے دو باغ بنائے (آیت) ” وحففنھما بنخل “۔ اور ان دونوں کو ہم نے کھجور کے درختوں کی باڑھ سے گھیر لیا تھا ، باغوں کی حفاظت کے لیے اکثر لوگ ان کے ارد گرد دیوار کھینچ لیتے ہیں ، خاردار تار لگا دیتے ہیں یا کانٹے دار جھاڑیاں اگا دیتے ہیں مگر ان دو باغوں کے اردگرد اللہ نے کھجور کے درخت پیدا کردیے تھے جو بیک وقت باغ کے لیے باڑھ کا کام بھی دیتے اور خود بھی اعلی قسم کا پھل دیتے ، کھجور کے درخت عام طور پر لمبے ہوتے ہیں اور زمین پر ان کے سائے کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا ، لہذا ان کے نیچے خالی جگہ پر کاشتکاری بھی ہو سکتی ہے ، اسی لیے اللہ نے فرمایا (آیت) ” وجعلنا بینھما زرعا “۔ اور ہم نے دونوں باغوں کے درمیان کھیتی کا انتظام بھی کردیا تھا غرضیکہ باغوں کے مالک کو بیک وقت تین فوائد حاصل تھے ، اصل باغات انگوروں کے تھے ، ان کے اردگرد کھجور کے درخت بطور باڑھ تھے اور خود بھی پھل دیتے تھے اس کے علاوہ باغات کے درمیان خالی جگہ پر کاشتکاری بھی ہوتی تھی ۔ فرمایا (آیت) ” کلتا الجنتین اتت اکلھا دونوں باغ خوب پھل دیتے تھے (آیت) ” ولم تظلم منہ شیئا “۔ اور نہیں کم کرتے تھے اس میں سے کوئی چیز موسم کے مطابق دونوں باغ خوب پھل دیتے تھے فرمایا (آیت) ” وفجرنا خللھما نھرا “۔ اور ان دونوں کے درمیان ہم نے نہر جاری کردی تھی ، پھل ، اناج اور سبزی کا دارومدار پانی پر ہوتا ہے اللہ نے وہ بھی مہیا کردیا تھا ، خود انسانوں اور جانوروں کے پینے کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے نہر جاری کر کے یہ ساری ضرورتیں پوری کردی تھیں بعض مفسرین نے اس نہر کا تعین بھی کیا ہے فرماتے ہیں کہ یہ نہر فلسطین میں رملہ نامی بستی کے قریب سے گزرتی تھی اس نہر کے کنارے وہ بستی ہے جس میں یہ دو شخص رہتے تھے ۔ فرمایا (آیت) ” وکان لہ ثمر “۔ باغوں کے مالک کے ہاں دوسرے پھل بھی تھے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہاں پر ثمر سے مراد محض پھل نہیں بلکہ دوسرے ذرائع آمدنی بھی ہو سکتے ہیں ، انسان تجارت کرتا ہے صنعت وحرفت کا پیشہ اختیار کرتا یا کوئی دیگر کام کرتا تو وہ اس کا ذریعہ آمدنی ہوتا ہے اور اسے کسی شخص کا حاصل یا پھل بھی کہہ سکتے ہیں اس کی مثال مکہ کے بعض دولت مندلوگ ہیں جن کے طائف میں بھی باغات تھے اور وسیع تجارتی کاروبار بھی تھا ، انہوں نے لاکھوں دنیا کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی ، اس کے علاوہ ان کے بکریوں کے ریوڑ تھے کام کاج اور خدمت کے لیے غلام تھے ، آرام و آسائش کا پورا سامان اور رفاہیت حاصل تھی ، اللہ نے اولاد بھی کثرت سے عطا فرمائی تھی جیسے ولید بن مغیرہ کے دس بیٹھے تھے جن پر وہ فخر کیا کرتا تھا سورة القلم میں اللہ نے اس کی مذمت بیان فرمائی ہے (1) ( قرطبی ص 73 ج 19 و خازن ص 175 ج 7 (فیاض) ان میں سے تین بیٹے اسلام لائے ایسی ہی چیزوں کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ اس کے لیے پھل تھا ۔ (صاحب مال کا تکبر) فرمایا (آیت) ” فقال لصاحبہ وھو یحاورہ “۔ اس نے اپنے بھائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا (آیت) ” انا اکثر منک مالا واعز نفرا “۔ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور تعداد میں بھی غالب ہوں ، میری اولاد ہے لونڈیاں اور غلام ہیں ، نوکر چاکر ہیں ، برخلاف اس کے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں اس قسم کی باتیں وہ لوگوں کے سامنے فخریہ طور پر کیا کرتا تھا قرآن پاک میں دوسرے مقامات پر موجود ہے کہ اکثر نافرمان ، کافر اور مشرک لوگ ایسی ہی چیزوں پر فخر کرتے ہیں تو اس شخص نے بھی اپنے مال اور اولاد پر تکبر کا اظہار کیا ۔ (آیت) ” ودخل جنتہ “۔ اسی حالت میں وہ اپنے باغ میں داخل ہوا (آیت) ” وھو ظالم لنفسہ “ اس حال میں وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا تھا کفر اور شرک بجائے خود ظلم ہے جسے اس شخص نے اختیار کر رکھا تھا اس کے علاوہ اس کے دماغ میں غرور وتکبر کا نشہ بھی موجود تھا اور وہ اپنے غریب مسلمان بھائی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ، خدا کی قدرت پر یقین نہیں رکھتا تھا اور اپنی بڑائی کا اظہار کرتا تھا ، یہ ساری چیزیں اپنی جان پر ظلم کرنے کے مترادف ہیں کیونکہ آخرت میں ان کا وبال اسی کی جان پر پڑے گا ، بہرحال اسے اپنے مال واولاد پر بڑا فخر تھا قال کہنے لگا (آیت) ” ما اظن ان تبید ھذہ ابدا من نہیں گمان کرتا کہ یہ سب کچھ کبھی ہلاک بھی ہوجائے گا ، اس کے زعم میں یہ بات تھی کہ جب تک میں موجود ہوں میرا یہ مال واولاد اور باغات بھی موجود ہیں ۔ (قیامت کا انکار) وہ شخص قیامت کا بھی منکر تھا ، کہتا تھا (آیت) ” وما اظن الساعۃ قائمۃ “ میں تو خیال نہیں کرتا کہ قیامت بھی واقع ہوگی وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال سب بناوٹی باتیں ہیں جن کی کچھ حقیقت نہیں ، اس نے اللہ کے تمام انعامات کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب کرنے کی بجائے ، اسے اپنے ذاتی کمال کا نتیجہ جانا ، البتہ وہ اپنے پروردگار کو مانتا تھا جیسا کہ اگلے جملے سے واضح ہے ، کہنے لگا (آیت) ” ولئن رددت الی ربی “۔ اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا (آیت) ” لاجدن خیرا منھا منقلبا “۔ تو وہاں پر مجھے اس سے بھی بہتری حاصل ہوگی ، جس طرح یہاں باغات اور مال و دولت حاصل ہے ایسے ہی آخرت میں بھی یہ چیزیں بلکہ اس سے بہتر چیزیں حاصل ہوں گی ، یہ بھی شرک کی ایک بدترین قسم ہے کہ دنیا کے لوازمات کو خدا تعالیٰ کی عطا سمجھنے کی بجائے اسے اپنی عقل وعلم ‘ ہنر ، سائنس اور ٹیکنا لوجی کا کمال سمجھا جائے ، یہی الحادی شرک قارون میں بھی پایا جاتا تھا ، جس نے کہا تھا (آیت) ” انما اوتیتہ علی علم عندی “۔ (القصص ، 78) میرے یہ تمام مال وخزانے میرے علم کی وجہ سے ہیں ، مجھ پر کسی کا کیا احسان ہے جو میں نے اس کے نام پر اس میں سے خرچ کروں ، آجکل اکثر تاجروں کا بھی یہی حال ہے وہ ہیرا پھیری کرکے مال کماتے ہیں اور پھر اس کو اپنا کمال سمجھتے ہیں نہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہیں اور نہ اس کے قائم کردہ حقوق کی پابندی کرتے ہیں ۔ بہرحال آج کے اکثر مشرکوں کا بھی یہی حال ہے وہ اس دنیا کی حالت کو ہمیشگی پر محمول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہاں آسودہ حال ہیں تو آخرت میں بھی ایسے ہی ہوں گے غرضیکہ اس مالدار شخص نے اپنے غریب بھائی کے ساتھ فخر وتکبر کی بات کی اور اس کو حقیر جانا اب اگلے درس میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے مسلمان بھائی کا جواب ذکر کیا ہے اور اس شخص پر جو آزمائش ڈالی تھی اس کو بیان کرکے مالدار شخص کی حسرت کو بیان کیا ہے ۔
Top