Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 14
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۚۖ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت لَمَسَّكُمْ : ضرور تم پر پڑتا فِيْ مَآ : اس میں جو اَفَضْتُمْ : تم پڑے فِيْهِ : اس میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت دنیا اور آخرت میں تو ضرور پہنچتا تم کو اس چیز میں جس کا تم نے چرچا کیا تھا عذاب عظیم
بہتان تراشی پر تنبیہ : واقعہ افک کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مزید تنبیہ فرمائی ہے ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا والاخرۃ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی دنیا اور آخرت میں لمسکم فی ما افضتم فیہ عذاب عظیم تو ضرور تم کو عذاب عظیم پہنچتا اس چیزیں جس کا تم نے چرچا کیا ہے ظاہر ہے کہ یہ تشہیر واقعہ افک سے متعلق تھی جس میں منافقوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر الزام تراشی کی تھی اور بعض مسلمان بھی اس پراپیگنڈا کا شکار ہوگئے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کے فضل ورحمت کی وجہ سے تم سخت سزا سے بچ گئے ، وگرنہ یہ بہت بری بات تھی جس سے ناموس رسول میں خلل واقع ہوتا تھا۔ فرمایا اذ تلقونہ بالسنتکم جب تم اس بات کو اپنی زبانوں پر چڑھا رہے تھے وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم اور اپنے مونہوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم نہیں۔ یعنی تم بلا تحقیق منافقوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ وتحسبونہ ھینا ، اور تم اسے ہلکی بات خیال کر رہے تھے۔ وھوعند اللہ عظیم حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی کیونکہ اس کے ذریعے صدیق اکبر ؓ کی بیٹی اور حضور ﷺ کی پاک بیوی کی عزت پر بٹہ لگ رہا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اسے معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ولولا اذسمعتموہ قلتم مایکون لنا ان نتکلم بھذا ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو یوں کہہ دیتے کہ اس بات کو زبان پر لانا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے تمہیں تو ایسے الزام کی فوراً تردید کرنی چاہیے تھی اور صاف کہہ دینا چاہیے تھا سبحنک ھذا بھتان عظیم اے پروردگار ! تیری ذات پاک ہے اور جو منافق کر رہے ہیں یہ بہت بڑا بہتان ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں۔ تمہیں تو نبی کے اہل بیت کے متعلق اچھا گمان کرنا چاہیے تھا مگر تم بھی منافقوں کے جھانسے میں آگئے اور ایسی غلط بات زبان سے نکالی۔ اللہ نے سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ پھر فرمایا یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو آئندہ ایسی بات کبھی نہ کرنا بلکہ ان منافقوں کی سازشوں سے چوکس رہنا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت کا ادب واحترام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا ۔ اللہ نے یہ بھی فرما دیا ویبین اللہ لکم الایت اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات یعنی احکام کھول کر بیان کرتا ہے واللہ علیم حکیم اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اس نے تمام احکام اور حدود اور نصیحت کی باتیں تمہارے فائدے کے لئے بیان کردی ہیں۔ اس کی ہر بات کی بنیاد اس کے کلی علم اور کمال حکمت پر مبنی ہوتی ، لہٰذا اس کے ہر حکم کو کامل یقین کے ساتھ اپنے دلوں میں جگہ دو اور اس پر عمل پیرا ہوجائو۔ اہل ایمان کے باہمی روابط : اہل ایمان کے باہمی تعلقات کے متعلق ایک بات تو پہلے بیان ہوچکی ہے ظن ………… …خیرا (آیت 12) یعنی مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آپس میں اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ اور بدگمانی سے بچنا چاہیے۔ کسی کے خلاف بلا تحقیق الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا (بخاری ، مسلم) ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے ایک عمارت کی مانند ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کے لئے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اسی طرح اہل ایمان کو بھی ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث بننا چاہیے نہ کہ ضعف کا۔ نبی رحمت نے عام مومنوں کے لئے یہ قانون بھی بیان فرمادیا۔ المومن من امن جارہ بوائقہ مومن وہ ہے جس کا پڑوسی اس سے امن میں ہے۔ جس کا پڑوسی اس سے نالاں ہے وہ مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ نیز فرمایا المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (ترمذی ونسائی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں آنحضرت ﷺ کا یہ بھی فرمان (بخاری ص 6 ج 1) ہے من سران یزحزح عن النار ویدخل الجنۃ فلتاتہ منیتہ یشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ جو شخص پسند کرتا ہے کہ اسے دوزخ کی آگ سے بچا لیاجائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو اس کی موت ایسی حالت میں آنی چاہیے کہ وہ توحید و رسالت کی گواہی دینے والا ہو۔ اور دوسری بات یہ ہونی چاہیے یحب ان یاتی الی الناس ما یحب ان یاتی الناس الیہ…وہ لوگوں کے ساتھ بھی اس بات کو پسند کرتا ہو جو اپنے لئے پسند کرتا ہے جس چیز کوئی شخص خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا ہو دوسروں پر الزام تراشی کیسے کریگا۔ حضور ﷺ (بخاری ص 6 ج 1 ومسلم ص 50 ج 1 (فیاض) کا یہ بھی فرمان ہے لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ (بخاری ، مسلم) کوئی شخص صحیح معنوں میں مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ کوئی اپنی تذلیل وتحقیر کو پسند نہیں کرتا ، اس لئے اسے دوسرے کی عزت وناموس کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔ عیب جوئی کی ممانعت : مسند احمد میں حضور ﷺ کا یہ فرمان موجود (بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص 285 ج 3 (فیاض) ہے لا توذوا عباد للہ ولا تطلبوا عوراتھم لوگو ! اللہ کے بندوں کو تکلیف نہ پہنچائو اور ان کی عیب جوئی کرو۔ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو تلاش کیا طلب اللہ عورتہ حتی یخذ لہ فی بیتہ اللہ اس کے عیب اس طرح ظاہر کرے گا کہ اسے گھر بیٹھے بیٹھے ہی ذلیل ورسوا کردیگا جب عام مسلمانوں کے لئے یہ قانون ہے کہ کسی کی پردہ داری نہ کرو اللہ کے نبی اور اس کی پاک بیوی پر اتہام لگانا اور پھر اس کی تشہیر کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سخت تنبیہ فرمائی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی شامل حال نہ ہوتی تو تمہیں اس بدگمانی کی وجہ سے دنیا و آخرت میں سخت ذلت اٹھانا پڑتی۔ یہ تو اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے وحی کے ذریعے معاملہ کر واضح کردیا ہے وگرنہ تم تو پکڑے گئے تھے۔ فحاشی کی تشہیر : آگے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بھی بیان فرمادی ہے۔ ان الذین تحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا تحقیق وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں۔ کہ بےحیائی کی بات کی تشہیر ہو ان لوگوں کے بارے میں جو ایمان لا چکے ہیں۔ فرمایا لھم عذاب الیم فی الدنیا والاخرۃ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہ بھی واقعہ افک ہی کی طرف اشارہ ہے۔ اس الزام تراشی کا کرتا دھرتا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھا۔ اسی نے اس بات کا چرچا کیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اس کے لئے درد ناک عذاب کی وعید سنائی ۔ قولا یا عملاً کسی طرح بھی فحاشی کی بات کو پھیلانا درست نہیں۔ یہ آیت بتلارہی ہے کہ بےحیائی کی تمام باتیں منجملہ زنا ، لواطت ، برہنگی ، عریانی وغیرہ کی تشہیر معاشرے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں کو سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔ یورپ اور مشرکین کی تہذیب تو اس تشہیر کی بانی مبانی ہیں آج کے زمانے میں مسلمان قوم کا بھی یہی حال ہے۔ مسلمان چاہے عرب کے ہوں یا عجم کے ، ایرانی ہوں یاتورانی ہر جگہ بےحیائی کا چرچا ہے۔ اخباروں اور رسالوں میں دیکھ لیں نیم عریاں تصویروں کی بھر مار ہے۔ کھیل تماشے کی تصویریں ہوں یا فلمی اشتہارات ، فن کے نام پر انٹرویو ہو یا فیشن شو کی خبریں ہر جگہ عریانی اور فحاشی کا دور دورہ ہے۔ اور تمام اخبارات اور رسائل اس کی تشہیر کا ذریعہ ہیں۔ اب ٹیلیوژن ان سب پر بازی لے گیا ہے جو محض بےحیائی اور عیاشی کا اڈہ بن چکا ہے۔ ٹھیک ہے اس میں چندمنٹ کے لئے اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں مگر بحیثیت مجموعی نت نئے فیشن معارف کرانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ بہرحال فحش بات کی تشہیر کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا وآخرت کی تذلیل کی وعید سنائی گئی ہے تم بےحیائی کی باتوں کو ترقی کا زینہ سمجھو مگر حقیقت میں یہ تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ فرمایا واللہ یعلم وانتم لا تعلمون اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے وہ اپنے علم اور حکمت کی بناء پر ایسے احکام نازل فرماتا ہے جو تمہیں برائی سے ہٹا کر نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تباہی سے بچا کر دائمی راحت کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو گے تو سوسائٹی پاک ہوگی۔ اور تم بداخلاقی اور بےحیائی سے بچ جائو گے اور تمہیں ترقی نصیب ہوگی۔ فرمایا ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی اور یہ بھی کہ وان اللہ رء وف رحیم اللہ تعالیٰ بہت شفقت کرنے والا اور بڑا مہربان ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو تم یقینا تباہی و بربادی کے عمیق گڑھے میں جاگرتے۔ گزشتہ رکوع کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کا ذکر کرکے فرمایا تھا وان اللہ تواب حکیم ، اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت رء وف رحیم کا ذکر ہے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ گزشتہ رکوع میں تین جرائم زنا ، قذف اور لعان اور پھر ان کی حدود کا بیان تھا۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ کی صفت حکیم کا تذکرہ ہی مناسب تھا کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومہربانی کے ساتھ تمہیں کیسے قوانین دیے ہیں جو تمہاری سوسائٹی سے برائی اور بےحیائی کو ختم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ خاص طور پر لعان کا قانون ایسا ہے جس سے میاں بیوی کی حیثیت بھی بچ گئی وگرنہ کسی ایک کو تو ضرور سزا ملتی۔ اگر خاوند کی طرف سے بیوی پر عاید کردہ اتہام زنا تسلیم کرلیا جاتا تو اسے سنگسار کرنا پڑتا ، اور اگر یہ الزام پایہ ثبوت کو نہ پہنچتا تو خاوند پر حد قذف جاری ہوتی۔ اللہ نے قانون لعان کے ذریعے دونوں کو بچالیا۔ میاں بیوی بدنامی سے بھی سچ گئے اور انہیں توبہ کا موقع بھی مل گیا ۔ اور اب اس آیت میں صرف معافی کا قانون ذکر کیا گیا ہے۔ جن لوگوں سے غلطی ہوئی ان پر حد قذف جاری ہوئی اور خدا نے ان کو معاف کردیا۔ اگر قرآن پاک کی آیات نازل ہو کر حضرت عائشہ ؓ کی بریت کا ذریعہ نہ بنتیں تو ہوسکتا ہے کہ امت کسی بڑے فتنے میں مبتلا ہوجاتی۔ سو یہ اللہ تعالیٰ کی رافت اور مہربانی تھی۔ اس کا فضل شامل حال تھا کہ اس نے ایسے قوانین نازل فرمائے اور ان کو ایسی نصیحت کی جس کے ذریعے وہ مزید خرابی سے بچ گئے۔ گویا اس مقام پر الفاظ رئوف اور رحیم ہی زیادہ مناسب حال ہیں۔
Top