Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 13
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا١ۙ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومنو) لَا تَتَّبِعُوْا : تم نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَمَنْ : اور جو يَّتَّبِعْ : پیروی کرتا ہے خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَالْمُنْكَرِ : اور بری بات وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت مَا زَكٰي : نہ پاک ہوتا مِنْكُمْ : تم سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی آدمی اَبَدًا : کبھی بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يُزَكِّيْ : پاک کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو ! نہ پیروی کرو شیطان کے نقش قدم کی پس جس شخص نے پیروی کی شیطان کے نقش قدم کی۔ پس بیشک وہ حکم دیتا ہے بےحیائی اور بری بات کا۔ اور اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تم پر اور اس کی رحمت تو نہ پاک کرتا وہ تم میں سے کسی ایک کو کبھی بھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ پاک کرتا ہے ، جس کو چاہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا ہے اور جانتا ہے
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر اتہام لگانے والوں کی مذمت بیان فرمائی اور ان لوگوں کی بھی جنہوں نے اس واقعہ کی بلا سوچے سمجھے اور بلا تحقیق تشہیر کی تھی۔ اللہ نے ان کو سزا بھی دی کہ ان پر حدقذف جاری ہوئی۔ ساتھ ساتھ اللہ نے سخت تنبیہ بھی کی کہ ایسی بات آئندہ نہیں ہونی چاہیے۔ پھر اللہ نے انہیں معاف بھی فرمادیا۔ البتہ رئیس المافقین پر حد جاری نہیں ہوئی تھی۔ اور اس کا معاملہ آخرت پر چھوڑ دیا گیا۔ اللہ نے اس کے لئے سخت عذاب کی وعید سنائی۔ اور پھر اللہ نے معاشرے کو بےحیائی کی باتوں سے پاک رکھنے کا حکم دیا۔ فرمایا جو لوگ بری باتوں کی تشہیر کو پسند کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کریگا۔ شیطان کے نقش قدم پر : اب آج کی دوآیات میں اللہ تعالیٰ نے دو مختلف مسائل بیان فرمائے ہیں۔ پہلی آیت میں اللہ نے اس کے مقرر کردہ قانون کی پابندی کرنے کا حکم دیا ہے اور قانون کی عدم پابندی کو شیطان کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا لا تتبعوا خطوت الشیطن۔ اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اللہ تعالیٰ نے جو قوانین مقرر فرمائے ہیں۔ ان پر عمل درآمد میں ہی اہل اسلام کی عزت و آبرو ہے اور اسی کے ذریعے ان کی ظاہری اور باطنی تطہیر ہوتی ہے۔ دیکھو ! اللہ نے زنا اور بےحیائی کے انسداد کے لئے حد مقرر کی ہے تاکہ بدمعاشوں اور غلط کار لوگوں کو برائی سے روکا جائے۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کے درمیان الزام تراشی تک نوبت پہنچی ہے تو اس معاملے کو نپٹانے کا بھی بہترین قانون دیا ہے جس سے زوجین کی پردہ دری بھی نہیں ہوتی اور معاملے کا فیصلہ بھی ہوجاتا ہے۔ یہ قوانین معاشرے کی درستگی کا ذریعہ ہیں ، لہٰذا ان کی پابندی لازمی ہے۔ ان قوانین کو توڑنے سے نہ دنیا میں چین نصیب ہوگا اور نہ آخرت کے عذاب سے بچ سکیں گے۔ غرضیکہ فرمایا کے شیطان کے نقش قدم پر مت چلو۔ ومن یتبع خطوت الشیطن ، جو کوئی شیطان کے نقش قدم پر چلے گا فانہ یامربالفشاء والمنکر ، تو وہ بےحیائی اور بری باتوں کا ہی حکم دیتا ہے۔ شیطان سے اچھی اور نیکی کی بات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے یہی مراد ہے اللہ کے جاری کردہ قانون کی پابندی نہ کی جائے بلکہ اپنی خواہشات کو قانون کے قائم مقام سمجھ لیا جائے۔ اس کو اتباع ہویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے اپنی خواہشات کا اتباع کرنے کے علاوہ…کسی خود ساختہ قاون پر چلنا بھی شیطان کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح قومی ، ملکی یا خاندانی رسم و رواج کے پیچھے چلتے رہنا اور خدائی احکام کی پرواہ نہ کرنا بھی شیطان کے اتباع کے مترادف ہے۔ سنت کی بجائے بدعات کو اختیار کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو بےحیائی اور برائی میں مبتلا ہوجائو گے۔ اگر اس قباحت سے بچنا چاہتے ہو اور اپنے دنیوی اور اخری حالات کو درست رکھنا چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کے قوانین کی پابندی اختیار کرو۔ یہی صراط مستقیم ہے اور اسی میں تمہاری فلاح ہے۔ واقع افک پر تبصرہ : اب واقعہ افک کو ہی دیکھ لو۔ بعض لوگوں نے شیطان کا اتباع کرتے ہوئے اللہ کے پاک نبی کی پاک بیوی پر اتہام لگایا اور آپ کو بدنام کرنے کی کوشش کی تو انہیں کس قدر خفت اٹھانا پڑی اہل ایمان پر حدقذف جاری ہوئی اور منافقوں کو آخرت کے درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی۔ یہ شیطان کے نقش قدم پر چلنے کا ہی نتیجہ ہے۔ قرآن نے ہر معاملہ میں قانون کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ کہیں حلال و حرام کی پابندی کا ذکر ہے تو کہیں نکاح و طلاق کے معاملہ میں پابندی عائد کی گئی ہے۔ کہیں نماز وزکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے تو کہیں شرک سے منع کیا گیا ہے۔ غرضیکہ رسم وراج ، لڑائی ، دنگا ، فساد ، بدکاری ، عریانی ، فحاشی اور ہر قسم کی برائی سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ نے انہی قوانین کی پابندی کا حکم دیا ہے اور ان کی عدم پابندی کو اتباع شیطان سے تعبیر کیا ہے۔ تطہیر نفس : ارشاد ہوتا ہے ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی زکی منکم من احد ابدا ، تو تم میں سے کسی کو کبھی بھی پاک نہ کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ورحمت تھی کہ اس نے اتہام لگانے والوں کو توبہ کی توفیق دی ، پھر ان پر حد جاری کرکے ان کو پاک کیا گیا ، اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کا حکم بھی دیا گیا۔ اللہ نے اپنی رحمت سے ایسا قانون ایسی شریعت نازل فرمائی جس میں اہل ایمان کی سراسر بہتری ہے۔ فرمایا ولکن اللہ یزکی من یشاء اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے جس کو چاہتا ہے پاک کردیتا ہے جس کو توبہ کی توفیق مل گئی اور معافی حاصل ہوگئی۔ وہ پاک ہوگیا اور یاد رکھو واللہ سمیع علیم اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنات ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ تمہاری نیت اور ارادے تک سے واقف ہے۔ اگر تم اس کے جاری کردہ قوانین پر عمل کرو گے تو وہ تمہاری دستگیری فرمائے گا اور تمہیں برائیوں سے پاک کردے گا۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی بات سمجھائی ہے کہ اس کے قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ حضرت صدیق ؓ کی قسم : گزشتہ دروس میں بیان ہوچکا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر اتہام لگانے والوں میں تین مومن بھی شامل تھے۔ ان میں ایک عورت حمنہ بنت جحش ؓ اور دو مرد حسان بن ثابت ؓ اور مسطح ابن اثاثہ ؓ تھے۔ حضرت مسطح ؓ مہاجرین میں سے تھے مگر غریب آدمی تھے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خالہ زادہ بھائی یا بھانجھے تھے اور آپ ان کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ جب واقعہ افک پیش آیا اور حضرت مسطح ؓ پر حد قذف بھی جاری ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ کو ان کی طرف سے بڑا دکھ پہنچا کر یہ میرے قرابت دار بھی ہیں اور میں ان کی مالی مدد بھی کرتا ہوں مگر انہوں نے کسی بات کو ملحوظ نہیں رکھا اور میری بیٹی پر اتہام لگانے والوں میں شامل ہوگئے۔ چناچہ آپ نے قسم اٹھالی کہ میں آئندہ اس شخص کی مالی مدد نہیں کروں گا۔ آپ کا غصہ اپنی جگہ پر کسی حد تک بجا تھا۔ اس سلسلے میں عربی کا مقولہ بھی ہے۔ وظلم ذوی القربیٰ اشد مضافۃ علی المرء من وقع الحسام المہند یعنی قرابت داری کا ظلم و زیادتی تلوار سے بھی زیاد ہ سخت ہوتا ہے۔ ان کی معمولی سی بات پر بھی زیادہ غصہ آتا ہے کہ اپنا ہو کر اس نے کیوں ایسی حرکت کی۔ بہرحال حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس شخص کی مالی امداد روک دینے کی قسم اٹھائی تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے ایسی قسم سے منع فرما دیا آج کی دوسری آیت میں اسی بات کا تذکرہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولا یاتل اولو الفضل منکم والسعۃ اور نہ قسم اٹھائیں تم میں سے صاحب فضیلت اور وسعت والے اس بات سے ان یوتوا اولی القربیٰ والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ، کہ وہ نہ دیں گے قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو۔ ظاہر ہے کہ صاحب فضیلت سے مراد حضرت صدیق ؓ ہیں آپ کو پوری امت میں سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ آپ نے صرف زہد وتقویٰ کے لحاظ سے افضل ہیں بلکہ آپ حضور ﷺ کے سسر اور اولین جانشین بھی ہیں مالی لحاظ سے بھی آپ صاحب وسعت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی بھی فراوانی دی تھی اور آپ غرباء و مساکین اور قرابت داروں کی مدد بھی فرماتے تھے۔ دوسری طرف حضرت مسطح ؓ ہیں جو حضرت صدیق ؓ کے قرابت دار بھی ہیں ، مسکین بھی ہیں کہ مالی حالت کمزور ہے اور پھر مہاجر بھی ہیں۔ تو اس آیت کریمہ میں اللہ نے یہی بات سمجھائی ہے کہ غصے میں آکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حضرت مسطح ؓ کی امداد روک لینے کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے۔ بلکہ والیعفوا چاہیے کہ انہیں معاف کردیں…جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی ہے ان کو سزا مل گئی ہے تو اب معاملہ ختم ہوجانا چاہیے ولیصفحوا ، اور درگز کرنا چاہیے یعنی اس بات کو اب ذہن سے بالکل نکال دینا چاہیے۔ اب اس کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ فرمایا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری لغزشوں کو معاف کردے۔ تم سے بھی تو غلطیاں ہوتی ہیں۔ جب تم اپنی کوتاہیوں کی معافی کو پسند کرتے ہو تو جن مومنوں نے واقعہ افک میں غلطی کی ، ان کی معافی کو بھی پسند کرنا چاہیے اور ان کے معاملہ کو مزید طول نہیں دینا چاہیے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ آیت سنی تو کہا ، خدا کی قسم ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری لغزشوں کو معاف فرمادے لہٰذا میں نے بھی مسطح ؓ کو معاف کردیا اور اس بات سے درگزر کیا۔ اس کے بعد آپ نے صرف مالی امداد کو جاری رکھا ، بلکہ اسے دگنا کردیا۔ فرمایا واللہ غفور رحیم ، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور ازحد مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خطاکاروں پر مہربانی فرمائی اور انہیں معاف کردیا۔ پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرما کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بھی یہ بات سمجھا دی اور یہ آپ پر بھی مہربانی تھی جس کا اثر پھر حضرت مسطح ؓ پر دوہری امداد کی صورت میں ظاہر ہوا۔ قانون میں کمی بیشی : اس آیت کریمہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ قانون میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو اختیار ن ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے۔ اس واقعہ سے متعلق لوگوں پر حد قذف جاری ہوئی جو کہ اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی تھی۔ اب صدیق اکبر ؓ نے اس سزا میں اضافہ کرکے ایک شخص کی امداد روک دینے کی قسم اٹھائی تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی ، لہٰذا اس سے منع کردیا گیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ایک حاکم سے فرمائے گا کہ فلاں شخص کے جرم کی سزا چالیس درے تھی ، مگر تم نے اس میں ایک درے کا اضافہ کیوں کیا ؟ وہ عرض کریگا کہ مولیٰ کریم میں نے یہ اضافہ جرائم کی روک تھام کے لئے کیا تھا۔ اللہ فرمائے گا کہ میں نے ایک جرم کی سزا مقرر کی تھی مگر کیا تم مجھ سے زیادہ لوگوں کو روکنا چاہتے تھے۔ پھر حکم ہوگا اس حاکم کو جہنم میں لے جائو۔ اسی طرح ایک دوسرا حاکم پیش ہوگا۔ اللہ فرمائے گا کہ میں نے اس جرم کی حد چالیس درے مقرر کی تھی تم نے اس میں ایک درے کی کمی کیوں کی ، وہ عرض کرے گا ، باری تعالیٰ ! مجھے اس مجرم پر رحم آگیا تھا۔ اللہ فرمائے گا ، کیا تو مجھ سے زیادہ رحیم بننا چاہتا تھا جو اس کی سزا میں کمی کردی حکم ہوگا کہ اس کو بھی جہنم رسید کردو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کے ایک گورنر نے آپ کو لکھا کہ میرے علاقے میں چوری کی وارداتیں کثرت سے ہوتی ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں چوروں پر جرمانے کی سزا میں اضافہ کردوں۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ مرکز سے کچھ رقم بھجوائیں تاکہ میں شہر کی سڑکیں اور گلیاں صاف کرادوں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس قانون کا اجراء پر جرم نہیں رکتے ، خدا کرے کہ وہ کبھی نہ رکیں یعنی جب اللہ کی مقرر کردہ حد سے جرم نہیں رکے گا تو پھر کس سزا سے رکے گا۔ اور گلیوں اور بازاروں کی صفائی کے متعلق آپ نے گورنر کو لکھا کہ تم ان گلیوں اور بازاروں کو عدل و انصاف سے بھردو گے تو گ خودبخود انہیں صاف کرنے لگیں گے اور تمہاری کسی کاوش کی ضرورت نہیں رہے گی۔ چناچہ اس گورنر نے لوگوں پر سختی کرنا چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چوری کی وارداتیں کم ہوگئیں۔ لوگوں کو یقین ہوگیا کہ کوئی شخص بلا قصور نہیں پکڑا جائے گا۔ انگریزی قانون میں یہی خرابی ہے کہ جرم کی سزا میں کمی بیشی کی جاتی ہے۔ کوئی اپنا آدمی ملوث ہوگیا۔ تو چھوڑ دیا یا سزا میں ممکنہ حد تک کمی کردی اور اگر کوئی غیر پھنس گیا تو اسے سولی پر لٹکا دیا۔ انگریزی قوانین میں مقرر کردہ سزائیں خدائی حدود سے متصادم ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ چوری رکتی ہے ، نہ قتل اور نہ ڈاکہ زنی ، ہر طرف بےحیائی کا دور دورہ ہے ، لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ نہ کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ مال وجان ۔ یہ سب اسلامی تعزیرات سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ جب اسلامی تعزیرات کی پابندی کی جائیگی تو جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ سزائوں میں کمی بیشی کرنا قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی سمجھا دی ہے کہ اس مقرر کردہ حدوں میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرو ورنہ قانون کی روح ہی فنا ہوجائے گی۔
Top